مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع

قرض اور استطاعت ← → حج

استطاعت پائے جانے کے شرائط

پہلی شرط: مالی توانائی رکھتا ہو

مسئلہ 2165: حج واجب ہونے میں قدرت مالی شرط ہے یعنی انسان حج کے سفر کے اخراجات سواری گاڑی (اگر ضرورت رکھتا ہے) یا پیسہ جس سے ان کو مہیّا کر سکے اور واضح تعبیر میں جو بھی حج کے لیے قابلِ ضرورت اخراجات ہیں جیسے وطن[215] سے جانے آنے کا خرچ (حمل و نقل) کھانا پینا، لباس، رہنے کی جگہ کا کرایہ اور حج کے سفر کی دوسری ضروریات اور اسی طرح سواری گاڑی(اگر ضرورت مندہے) رکھتا ہو۔

مسئلہ 2166: جو شخص مالی توانائی نہیں رکھتا ہے اور مستطیع شمار نہیں ہوتا تو اس کےلیے استطاعت کو فراہم کرنے کےلیے کوشش کرنا اور کام یا تجارت کرنا لازم نہیں ہے۔

مسئلہ 2167: اگر انسان کے پاس مال ہو لیکن نہ جانتا ہو کہ حج کے اخراجات کے لیے کافی ہوگا یا نہیں تو لازم ہے کہ تحقیق کرے۔

مسئلہ 2168: وہ مال جو زندگی کے لیے ضروری ہے اور اسی طرح غیر ضروری مال کہ انسان اس کا ضرورت مند ہے اور مقدار اور کیفیت کے لحاظ سے اس کی شان کے مطابق ہے ، شان سے زیادہ نہیں ہے حج كرنے جانے کے لیے اس کا بیچنا ضروری نہیں ہے اس بنا پر جس گھر میں رہ رہا ہے، گاڑی ، گھر کا سامان، کتابیں جو پڑھائی کے لیے استفادہ کر رہا ہے کام کے آلات، لباس جو زینت کے لیے استعمال کر رہا ہے چنانچہ اس کی ضرورت اور شان سے زیادہ نہ ہو تو اس کا بیچنا ضروری نہیں ہے اور اگر اس کی ضرورت اور شان سے زیادہ ہو جو حج کے اخراجات کےلیے کافی ہو یا یہ کہ کوئی دوسرا مال رکھتا ہو جس کو ملا کر حج کےلیے کافی ہو، تو انسان مستطیع شمار ہوگا اور اسی طرح جس کے پاس گھر یا گاڑی ہے جسے اور سستے گھر یا گاڑی میں جو اس کی شان کے خلاف نہیں ہے تبدیل کر سکتا ہے اور باقی پیسے سے یا اور دوسرا پیسہ ملا کر حج كرنے جا سکتا ہو تو وہ مستطیع شمار ہوگا ۔[216]

مسئلہ 2169: اگر کسی شخص کے پاس اتنا پیسہ ہو کہ حج کے اخراجات کےلیے کفایت کرتا ہو لیکن شادی یا گھر خریدنے یا کسی اور چیز کی خود یا کسی اور کےلیے ضرورت رکھتا ہو تو اگر اس پیسے کا حج کے لیے خرچ کرنا سبب بنے کہ انسان زیادہ سختی اور مشقت میں پڑ جائے تو اس پر حج واجب نہیں ہے، چنانچہ حد سےزیادہ سختی کا باعث نہ ہو تو مستطیع شمار ہوگا اور اس پر حج واجب ہے اس بنا پر مثال کے طور پر اگر خود کا گھر نہ ہو تو حد سے زیادہ سختی میں پڑجائے گا تو اس صورت میں مستطیع شمار ہوگا جب گھر کے پیسے کے علاوہ حج كے لیے جانے کا بھی پیسہ رکھتا ہو۔

مسئلہ 2170: اگر انسان کے پاس کوئی ملكیت یا سامان ہو جو گذشتہ مسائل کے مدّنظر حج كرنے جانے کےلیے بیچنا واجب ہے چنانچہ ایسا خریدار جو اسے بازار کی رائج قیمت سے خریدے موجود نہ ہو تو اگر رائج قیمت سے کم میں بیچنا اس شخص پر اجحاف (زیادہ ضرر) کا باعث نہ ہو لازم ہے کہ اسے بیچے اور حج كرنے جائے اور اگر اجحاف (زیادہ ضرر) ہو تو بیچنا واجب نہیں ہے۔

مسئلہ 2171: جس شخص کے پاس اتنی مقدار میں مال ہو جو حج کے اخراجات کےلیے کافی ہے اور اپنا اور اپنے اہل و عیال کے اخراجات کسی دوسرے جائز طریقے سے (اس مال کے علاوہ) مشقت کے بغیر فراہم ہو۔ جیسے کہ کوئی ایسا کام کرتا ہو جو اس کے اخراجات کو پورا کرے یا کوئی دوسرا شخص اس کے اخراجات کو پورا کرے یا رقوم شرعی سے اگر اس کا مستحق ہو اور اسی طرح اگر کوئی شخص جو مال اس کے پاس ہے اُسے حج میں خرچ کرے تو اس کی زندگی حج کے بعد حج کے پہلے كی بہ نسبت کوئی فرق نہ کرے تو وہ مستطیع ہے لہٰذا واجب ہے كہ حج كرنے جائے۔

مسئلہ 2172: وہ استطاعت جو حج میں لازم ہے اس جگہ سے جانے کی استطاعت رکھتا ہو جس جگہ پر ہے نہ شہر یا اس کے وطن سے اس بنا پر اگر مکلف اپنے شہر میں مستطیع نہ ہو اور تجارت یا کسی اور کام کے لیے کسی دوسرے شہر مثلاً جدہ جائے اور وہاں اتنا پیسہ فراہم ہو جائے کہ مکّہ جاکر حج کے اعمال بجا لا سکتا ہو اور استطاعت کے دوسرے شرائط بھی رکھتا ہو تو وہ مستطیع شمار ہوگا اور لازم ہے کہ حج بجالائے اور اگر حج بجالائے اور بعد میں اتنا پیسہ ہو جائے کہ وطن سے بھی حج كرنے جا سکتا ہو پھر بھی اس پر دوبارہ حج واجب نہیں ہے۔

دوسری شرط: جسمانی توانائی

مسئلہ 2173: جسمانی توانائی رکھنا حج واجب ہونے کی شرط ہے اس معنی میں کہ انسان سلامتِ مزاج اور جسمانی توانائی رکھتا ہو کہ بغیر زیادہ مشقت (حرج) کے جو عرفاً قابلِ تحمل نہیں ہے مکّہ جائے اور حج بجالائے۔

البتہ جس شخص کے پاس مالی توانائی ہو لیکن جسمانی توانائی نہ رکھتا ہواور آخر عمر تک صحیح ہونے کی بھی امید نہ ہو تو لازم ہےکہ ان شرائط کے مطابق جو بعد میں بیان کئے جائیں گے نائب معین کرے۔



تیسری شرط: راستہ کھلا اور با امن ہو

مسئلہ 2174: اگر راستہ بند ہو یا انسان خوف رکھتا ہو کہ راستے میں اس کی جان، مال یا آبرو کو کوئی خطرہ لاحق ہو تو اس پر حج واجب نہیں ہے، لیکن اگر کسی دوسرے راستے سے جا سکتا ہو گرچہ وہ راستہ دور ہو تو لازم ہے کہ اس راستے سے جائے مگر یہ کہ وہ راستہ اتنا دور اور غیر معمول ہو کہ کہا جائے حج کا راستہ بند ہے تو اس صورت میں حج واجب نہیں ہے۔

مسئلہ 2175: عورت پر حج کے واجب ہونے میں- اگر احتمالی حادثات اور نقصانات سے امان میں ہو- محرم کا ہونا لازم نہیں ہے اور اگر امنیت نہ رکھتی ہو تو لازم ہے کہ اس کے ساتھ کوئی ایسا شخص ہو جس کے ہونے سے وہ امان میں ہوگرچہ اس کام کے لیے کسی کو اجیر کرے البتہ یہ اس وقت ہے جب اجیر کی اجرت دینے کی توانائی رکھتی ہو ورنہ ایسی حالت میں اس پر حج واجب نہیں ہوگا۔



چوتھی شرط: وقت کا وسیع ہونا

مسئلہ 2176: وقت کا وسیع ہونا حج واجب ہونے کی ایك شرط اس معنی میں ہےکہ انسان مکہ تک سفر کرنے اور مکّہ میں اعمال حج بجالانے کی مقدار بھر وقت رکھتا ہو؛ اس بنا پر اگر کسی شخص کے لیے مالی توانائی حاصل ہوجائے لیکن بغیر حرج کے مقدمات سفر جیسے پاسپورٹ مہیا کرنا، ویزا، ہوائی جہاز کے ٹکٹ وغیرہ فراہم کرنے کےلیے وقت کافی نہ ہو تو اس صورت میں مستطیع نہیں ہوگا اور اس سال اس پر حج بجالانا واجب نہیں ہے ، لیکن اگر یقین یا اطمینان ہو کہ آنے والے سال یا آئندہ برسوں میں اس کے لیے استطاعت کے شرائط باقی رہیں گے اور حج كرنے جا سکتا ہے تو واجب ہے کہ اپنی مالی استطاعت کو حج بجالانے کےلیے باقی رکھے لیکن اگر ایسا یقین یا اطمینان نہ ہو تو مالی استطاعت کا آئندہ سال كے لیے باقی رکھنا لازم نہیں ہے۔





پانچویں شرط: حج کے سفر کی مدت میں اپنے اہل و عیال کے اخراجات کو فراہم کرنے کی توانائی رکھتا ہو

مسئلہ 2177: اگر حج کا انجام دینا باعث ہو کہ انسان ان افراد کے اخراجات جن کا خرچ اس پر واجب ہے جیسے بیوی اور بچے، یا وہ افراد جن کے اخراجات اس پر واجب نہیں ہیں لیکن ان کے اخراجات کا نہ دینا اس کے لیے حد سے زیادہ سختی رکھتا ہے پورا نہ کر سکے تو ایسی صورت میں انسان مستطیع نہیں ہے اور اس پر حج واجب نہیں ہے۔



چھٹی شرط: حج سے واپس آنے کے بعد زندگی کے اخراجات فراہم کرنے کی توانائی رکھتا ہو

مسئلہ 2178: اگر مکلف کی حالت اس طرح سے ہو کہ حج كے لیے جانے کی وجہ سے یا جو پیسہ اور در آمد اس کے پاس ہے اگر اسے حج میں خرچ کرے تو اپنے اہل و عیال کےلیے فقر کا خوف لاحق ہو مثلاً اس کی در آمد کا وقت ایام حج میں ہو اس طرح سے کہ اگر حج كرنے جائے تو پھر اس کی کمائی نہیں ہوگی یا بہت کم ہوگی اور زندگی کے اخراجات کو بقیہ ایام سال میں یا بعض ایام سال میں فراہم نہیں کر سکے گا تو اس پر حج واجب نہیں ہے۔

اسی طرح اگر کسی شخص کے پاس کچھ مقدار مال ہو جو حج کے اخراجات کےلیے کافی ہو لیکن وہ پیسہ، درآمد اور اس کے نیز اس کے اہل و عیال کے اخراجات کا ذریعہ ہو اور کسی دوسرے طریقے سے جو اس کی شان کے مطابق ہو اپنا خرچ نہ چلاسکتا ہو تو اس صورت میں اس پر حج واجب نہیں ہے۔

مسئلہ2179:وہ عورت جو (حج کے لیے) مکہ جا سکتی ہے اگر واپس آنے کے بعد اس کے پاس خود کا کوئی مال نہ ہو اور اس کا شوہر بھی مثلاً فقیر ہو اور اس کے خرچ کو نہ دیتا ہو اور حج انجام دینا باعث ہو کہ وہ زیادہ مشقت اور حرج میں پڑ جائے تو وہ مستطیع نہیں ہے اور اس پر حج واجب نہیں ہے۔



ساتویں شرط: مقروض نہ ہو

مسئلہ 2180: اگر انسان کو کوئی ایسا مال ملے جو حج کے اخراجات کی مقدار بھر ہو لیکن وہ شخص دوسرے لوگوں کا مقروض ہو یا خمس و زکوٰۃ اس کے ذمہ ہو کہ اگر قرض کی مقدار نکال دے تو بچا ہوا مال حج کے اخراجات کے لیے کافی نہ ہو تو اس صورت میں اس پر حج واجب نہیں ہوگا اور اس حکم میں فرق نہیں ہے کہ لوگوں کے قرض ادا کرنے کا وقت ہو گیا ہو یا نہ ہوا ہو مگر یہ کہ قرض کو ادا کرنے کا وقت بہت دور ہو کہ عاقل افراد کی نظر میں ایسے قرض کی طرف توجہ نہ کی جاتی ہو جیسے پچاس سال بعد اور یہ بھی فرق نہیں ہے کہ پہلے قرض لیا ہو اور بعد میں وہ مال ملا ہو یا بعد میں قرض لیا ہو البتہ اگر اس مال کے حاصل ہونے کے بعد مقروض ہونے میں اس سے کوئی کوتاہی نہ ہوئی ہو۔

مسئلہ 2181: جو شخص حج كرنے جانے کی مالی توانائی نہیں رکھتا اگر کوئی مال قرض پر لے جو حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو تو اس پر حج واجب نہیں ہوگا،گرچہ جانتا ہو کہ آئندہ اپنے قرض کو ادا کر سکے گا۔ مگر یہ کہ قرض کو ادا کرنے کا وقت بہت دور ہوکہ عاقل افراد کی نظر میں ایسے قرض کے ہونے پر توجہ نہیں کی جاتی ہو تو اس صورت میں انسان مستطیع شمار ہوگا اور اس پر حج واجب ہے۔

مسئلہ 2182: جو شخص مالی توانائی رکھتا ہے مثلاً ایسے سرمایہ کا مالک ہو جس کی ضرورت نہیں رکھتا جیسے اضافی ملكیت (پراپرٹی) زمینیں وغیرہ جسے بیچ سکتا ہو اور جو قیمت ملے وہ حج کےلیے کافی ہو تو نتیجتاً مستطیع شمار ہوگا چنانچہ اگر وہ انہیں نہ بیچے بلکہ حج کے اخراجات کےلیے قرض کرے اور اس قرض کے پیسے سے حج كے لیے جانا چاہے تو اس کا حج صحیح ہے۔

مسئلہ 2183: جس شخص کے عہدے میں پہلے حج ثابت ہو چکا ہے اور ابھی خمس اور زکوٰۃ کا بھی مقروض ہے ضروری ہے کہ انہیں ادا کرے اور حج کے سفر کی وجہ سے اس کے ادا کرنے میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر اس کے لیے اتنا مال فراہم ہو کہ دونوں كو ادا کرنے کےلیے (حج اور خمس یا زکوٰۃ) کافی نہ ہو تو حاکم شرع یا اس کے وکیل کی طرف رجوع کرے اور اس سے رقوم شرعیہ کے ادا کرنے میں تاخیر کےلیے اجازت لے اور حاکم شرع یا اس کا وکیل اس کے حالات کی تحقیق کرے اور وہ جن مقامات میں فرد قطعی ارادہ رکھتا ہو کہ حج سے واپس ہونے کے بعد پہلی فرصت میں اپنے شرعی حقوق کو ادا کرےتو اسے اجازت دے گا کہ خمس یا زکوٰۃ کے ادا کرنے میں تاخیر کرے اور بعد میں دے تو اس صورت میں انسان پر لازم ہے کہ حج انجام دینے کو شرعی حقوق کے ادا کرنے پر مقدم کرے۔

[215] یا کوئی دوسری جگہ جہاں سے حج كے لئے آنے کے بعد رہنا چاہتا ہے لیکن اگر ایسی جگہ رہنا چاہتا ہو جہاں جانے کا خرچ وطن واپس آنے سے زیادہ ہے چنانچہ وہاں پر رہنے کےلیے مجبور نہ ہو تو استطاعت حاصل ہونے کے لیے وطن تک واپس آنے کا خرچ رکھنا کافی ہے۔

[216] اسی طرح ہے اگر پہلے کسی مال کا ضرورت مند تھا لیکن اب اس سے بے نیاز ہو گیا ہے جیسے وہ عورت جو ضعیف ہونے یا کسی اور وجہ سے اپنے زیورات کی ضرورت مند نہیں ہے۔
قرض اور استطاعت ← → حج
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français