مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

بسم الله الرحمن الرحيم
آیت اللہ سیستانی کی رائےکے مطابق ہندوستان میں بدھ (10-4-2024) ماہ شوال کی پہلی اور عید سعید فطر ہے۔

فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع

در آمد کے خمس سے متعلق بعض دوسرے احکام ← → خمس نہ دئے ہوئے مال میں تصرف کرنا

مشکوک مال کا خمس اور وہ افراد جنہوں نے ایک مدت سے خمس نہیں دیا ہے

مسئلہ 2376:اگر انسان کے کسی سامان پر خمس واجب ہو جائے اور وہ اس کے خمس کو ادا کرے [279]اور اس سامان کی قیمت سال میں بڑھ جائے اور وہ شخص اسی سال کے درمیان اسے بیچ دے اور اس کا فائدہ نئے سال کے خمس کی تاریخ تک بچا رہے تو اس کا خمس دیتے وقت لازم ہے کہ اصل مال اور تمام اس فائدہ کا خمس جو خمس کے حصے سے حاصل ہوا ہے ادا کرے اور اپنے حصے کے فائدہ کا بھی خمس ادا کرے اور احتیاط واجب کی بنا پر صرف نئے سال کے خمس کی تاریخ پر موجودہ مال کا خمس ادا کرنا کافی نہیں ہے۔

مثال کے طور پر ایک شخص سال کی در آمد سے تجارت کے قصد سے کسی سامان کو خریدے جس سامان کی قیمت خمس کی تاریخ پر ایک لاکھ ریال ہے اور اس کا خمس ادا نہیں کیا ہے ، اور آئندہ سال جب اس سامان کی قیمت ایک لاکھ پچاس ہزار ریال ہوگئی ہے اسے بیچ دے اور یہ ایک لاکھ پچاس ہزار ریال خمس کی تاریخ تک باقی رہے اب اس شخص پر خمس ادا کرنےکے لیے لازم ہے:

الف: بیس ہزار ریال اصل مال کا خمس ادا کرے۔

ب: تمام وہ فائدہ جو خمس کے حصے سے حاصل ہوا ہے یعنی (دس ہزار ریال) بھی خمس کے طور پر ادا کرے ۔

ج: اپنے حصے کے فائدہ کا خمس (چالیس ہزار ریال) جو آٹھ ہزار ریال ہوگا بھی ادا کرے کہ نتیجتاً مجموعی طور پر اڑتیس ہزار ریال اسے ادا کرنا ہوگا۔

اور احتیاط واجب کی بنا پر صرف تیس ہزار ریال موجودہ مال کے خمس کے عنوان سے دینا کافی نہیں ہے۔

اور اسی طرح اگر انسان درخت بید اور چنار وغیرہ کے پودوں کو سال کی درآمد سے مہیّا کرے ، اور ان کی لکڑیوں سے تجارتی استفادہ کرنے کے لیے انہیں لگائے، چنانچہ اس درخت کاخمس پہلے سال میں ادا نہ کرے اور بعد کے سال میں رشد کیا ہو تو نئے سال کے خمس کی تاریخ پر لازم ہے کہ پہلے سال کے درخت اور اس کے نمو (رشد) اور اپنے حصے نمو (رشد) کا خمس ادا کرے اور احتیاط واجب کی بنا پر نئے سال کے خمس کی تاریخ پر صرف درخت کا خمس ادا کرنا کافی نہیں ہے اسی طرح اگر کسان ایسے بیج کو بوئے جس پر سال گزر گیا ہے اور اس کا خمس نہیں دیا ہے اور وہ بیج فصل میں تبدیل ہو جائے پھر بھی یہی حکم ہے۔

مسئلہ 2377: اگر وہ چیز جس پر خمس واجب ہوا ہو ایسی چیزوں میں سے ہو جس کی منفعت کو عرف میں کرایہ پر دیا جاتا ہے جیسے گھر ، دوکان، ٹیکسی وغیرہ چنانچہ اس چیز کا خمس دینے میں تاخیر کرے تو لازم ہے کہ اس کے ایک پنجم کا کرایہ بھی اس کے خمس میں تاخیر کرنے کی وجہ سے ادا کرے گرچہ اسے کرایہ پر نہ دیا ہو۔

مسئلہ 2378: خمس کی تاریخ کی ابتدا اور انتہا مکلف شخص کی طرف سے معین نہیں کی جا سکتی [280] بلکہ جیسا کہ مسئلہ نمبر 2298 اور 2302 میں ذکر ہوا کام کرنے والے شخص نے جس دن کام شروع کیا تھا وہی اس کے خمس کی تاریخ ہے بارہ مہینہ گزرنے کے بعد پہلا سال ختم ہو جائے گا اور دوسرا سال شروع ہو جائے گا اور کام نہ کرنے والے افراد اپنی ہردرآمد کے لیے الگ سال قرار دے سکتے ہیں اور ہر درآمد کے مالک ہونے سے بارہ مہینے گزرنے کے بعد اس کے خمس کی تاریخ ختم ہو جائے گی، اس بنا پر جو شخص خمس نہیں دیتا تھا اپنے خمس کی تاریخ گذشتہ تفصیلات کو مدّنظر رکھتے ہوئے تلاش کرے گا اور پھر ان تمام در آمدوں کا خمس جو سال کے آخر میں باقی رہی ہیں اور اخراجات میں خرچ نہیں ہوئی ہیں ادا کرے گا۔

مسئلہ 2379:اگر کسی شخص نے ایک مدت تک خمس ادا نہ کیا ہو اور اس مدت میں کچھ در آمد حاصل ہوئی ہو جس کی کچھ مقدار سے کچھ سامان خریدا ہو اور کچھ حصّے کو زندگی کے اخراجات یا کام میں خرچ کیا ہو اور ابھی اپنے مال کا خمس ادا کرنا چاہتا ہو تو اس کا حکم مندرجہ ذیل ہے:

الف: اگر ان سامان کو سال کے درمیان کی درآمد سے خریدا ہو چنانچہ اخراجات میں سے ہو جیسے رہائش کے لیے گھر، لباس، اپنے استعمال کے لیے گاڑی گھر کا سامان اور اسی سال میں اسے استعمال کیا ہو تو اس پر خمس واجب نہیں ہے اور اگر اخراجات میں خرچ نہ ہو اہو جیسے کام کے آلات ، تجارت کا مال یا وہ سامان جس کی ضرورت فی الحال اسے نہیں ہے لازم ہے کہ موجودہ قیمت سے اس کا خمس ادا کرے۔

ب: اگر اس سامان کو مخمّس یا حکم مخمّس (جو مال مخمّس کا حکم رکھتا ہے جیسے ارث، مال سے خریدا ہے تو اس پر خمس نہیں ہے مگر یہ کہ تجارت کا مال ہو تو اس کی قیمت میں جو اضافہ ہوا ہے اس پر خمس ہے۔

ج: اگر اس مال کو ایسی در آمد سے خریدے جس پر سال گزر گیا ہو[281]چنانچہ معاملے کی قیمت[282] کلی فی الذمہ[283] کی شکل میں ہو تو خریدی ہوئی قیمت کا خمس ادا کرنا کافی ہے ۔[284]

لیکن تجارت کا مال کہ جس کا خمس موجودہ قیمت پر واجب ہے چنانچہ اسے قیمت کلی فی الذمہ میں نہ خریدا ہو بلکہ معین قیمت سے ایسے بیچنے والے سے خریدے جو شیعہ اثناعشری ہو تو اس کی موجودہ قیمت کے لحاظ سے خمس ادا کرنا لازم ہے۔

د: اگر یہ اموال الف ،ب اور ج کے مقام سےترکیب کرکے تہیہ کئے گئے ہوں تو ہر مقام کے حصے کو معین کرکے اس کے دستور کے مطابق عمل کریں گے۔

ھ: اگر معلوم نہ ہو کہ ان سامان کو کس مال سے تہیہ کیا ہے تو اس کا حکم آئندہ مسائل میں بیان کیا جائے گا۔

قابلِ ذکر ہے کہ اگر مذکورہ مال اضافی نقدی پیسہ ، یا شادی کے لیے اکٹھا کیا گیا پیسہ ہو اور اس کے مانند ہوجو سال کے بیچ کی در آمد سے تہیہ کیا گیا ہو اور خمس کی تاریخ اس پر گزر گئی ہو تو لازم ہے کہ اس کا خمس ادا کرے۔

مسئلہ2380: زندگی کے روزمرہ کے اخراجات یا کام کے اخراجات جو ابھی (خمس حساب کرتے وقت) موجود نہیں ہیں بلکہ خرچ یا تلف ہو گئے ہیں مثلاً آذوقہ جو خرچ ہو گیا ہے ، ہدیہ، صدقہ یا انفاق جو دوسروں کے لیے انجام دیا ہے یا مہمان کی خاطر داری، زیارتی یا تفریحی سفر میں جو پیسہ خرچ ہوا ہے یا نذر اور کفارے کو ادا کرنے میں جو خرچ ہوا ہے یا اپنے اہل و عیال کے اخراجات کے لیے جو قرض لیا ہو اس کو ادا کرنے میں جو خرچ کیا ہے یا وہ مال جو بچوں کی شادی ان کی پڑھائی یا بیماری کے علاج میں خرچ ہوا ہے یا وہ مال جو دوسروں کے مال پر نقصان وارد کیا ہو اس کا خسارہ دینے کےلیے خرچ کیا ہو یا وہ تجارت کا مال جو چوری ہو گیا ہے یا وہ پیسہ جو پانی ، لائٹ، گیس، ٹیلیفون کی بل وغیرہ کے لیے دیا ہے چنانچہ یہ تمام اخراجات ایسی درآمد سے كیے ہوں جس كا سال گزر گیا ہے تو وہ شخص اس کے خمس کا ضامن ہے اور اگر اس کی مقدار میں شک ہو تو کافی ہے کہ اتنی مقدار جس کے بارے میں یقین ہے کہ مشمول خمس ہے اس کا خمس ادا کرے مگر یہ کہ مکلف اس موضوع میں مقصّر[285]رہا ہو کہ اس صورت میں احتیاط واجب کی بنا پر اپنے احتمال كی بہ نسبت مصالحہ کرے۔

مسئلہ 2381: اگر انسان کوئی مال، تجارت كے مال کے علاوہ پہلے خریدا ہو اور ابھی خمس کا حساب کرتے وقت اسے معلوم نہ ہو کہ ایسی در آمد سے خریدا ہے جس پر سال گزر گیا ہے یا سال کے دوران کی درآمد سے خریدا ہے یا یہ کہ معلوم نہ ہو کہ اسے کلی فی الذمہ کی قیمت سے خریدا ہے یا شخصی طور پر (عین پیسے کے ذریعے) خریدا ہے اور اس طرح ہو کہ یہ شک مسئلہ نمبر 2379 کے مدّنظر باعث بنے کہ اپنے اوپر خمس کے واجب ہونے یا نہ ہونے یا خمس کو خریدی ہوئی قیمت سے ادا کرنے یا موجودہ قیمت سے ادا کرنے میں تشخیص نہ دے سکتا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر احتمال كی بہ نسبت حاکم شرع سے مصالحہ کرے۔

مثال 1: کسی سامان کو اسی سال کے اخراجات میں استفادہ کرنے کے لیے کلی فی الذمہ قیمت سے خریدا ہو جس کے بارے میں 60 فی صد احتمال دے رہا ہو کہ ایسی در آمد سے خریدا ہے جس کا سال گزر گیا ہو اور 40 فی صد احتمال دے رہا ہو کہ اسی سال کی در آمد سے خریدا ہے تو اس صورت میں اس چیز کے 60 فی صد کا خمس دے اور اس طریقے سے حاکم شرع سے مصالحہ کرے۔

مثال 2: اگر کوئی سامان جو تجارت كے مال کے علاوہ ہے اور خریدے جانے والے سال میں استفادہ بھی نہ ہوا ہو مثلاً وہ سامان جسے آئندہ سال استفادہ کرنا چاہتا ہے کلی فی الذمہ قیمت سے خریدا ہو کہ جس کے بارے میں 60 فی صد احتمال دے رہا ہو کہ اسے سال کے بیچ کی درآمد سے خریدا ہے اور 40 فی صد احتمال دے رہا ہو کہ ایسے پیسے سے خریدا ہو جس پر سال گزر گیا ہے تو اس صورت میں 40فی صد مال کا خریدی ہوئی قیمت سے اور 60فی صد مال کا موجودہ قیمت سے خمس ادا کرے گا اور اس طریقے سے حاکم شرع سے مصالحہ کرے گا۔

اس مسئلے کی مختلف صورتوں کی اور بھی مثالیں تفصیلی کتابوں میں ذکر کی گئی ہیں۔

قابلِ ذکر ہے کہ اگر وہ مال ، تجارت کا مال ہو تو جیسا کہ پہلے بیان ہو ا ہر صورت میں اس کی موجودہ قیمت کا خمس ادا کرے۔

مسئلہ 2382: اگر کوئی شخص کسی سامان کو استفادہ کرنے کے لیے سال کے بیچ کی درآمد سے خریدے مثلاً اپنے گھر کے لیے قالین خریدا ہو لیکن اسے معلوم نہ ہو کہ اسے خریدے جانے والے سال میں استفادہ کیا ہے کہ اس صورت میں اس پر خمس واجب نہیں ہے یا بعد کے سال میں استفادہ کیا ہے کہ اس صورت میں اس کا خمس اسے ادا کرنا ہوگا تو اگر خود وہ سامان یا اس کا بدل موجود ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر حاکم شرع کے ساتھ احتمال كی نسبت سے مصالحہ کرے مثلاً اگر 30فی صد احتمال دے رہا ہو کہ خریدے جانے والے سال میں استفادہ نہیں ہوا ہے تو اس کی موجودہ قیمت کے 30فی صد کا خمس ادا کرے گا، اور اس طریقے سے حاکم شرع سے مصالحہ کرے گا اور اگر وہ سامان خود یا اس کا بدل موجود نہ ہو تو اس کاخمس ادا کرنا یا حاکم شرع سے مصالحہ کرنا لازم نہیں ہے مگر یہ کہ مکلف اس موضوع میں مقصّر (کوتاہی کرنے والا) رہا ہو تو اس صورت میں احتیاط واجب کی بنا پر حاکم شرع سے احتمال كی نسبت سے مصالحہ کرے گا۔

مسئلہ 2383: اگر کوئی شخص ایسا سامان جو اخراجات كا جز اور ضروریات زندگی میں سے نہیں ہے جیسے زمین یا دوکان خریدے اور یہ سامان خمس کی تاریخ تک ضروریات میں استعمال نہ ہو اور تجارت کا مال بھی نہ ہو اور اسے معلوم بھی نہ ہو کہ ایسے مال سے خریدا ہے جس پر خمس واجب نہیں تھا جیسے ارث کہ اس صورت میں اس سامان پر خمس واجب نہیں ہے یا اسی سال کی درآمد سے خریدا ہے کہ اس صورت میں اس کا خمس دینا ہوگا تو اگر خود سامان یا اس کا بدل موجود ہو احتیاط واجب ہے کہ حاکم شرع سے احتمال كی نسبت سے مصالحہ کرے مثلاً اگر سامان کی قیمت ایک لاکھ تومان ہے اور 70 فی صد احتمال دے رہا ہو کہ اسے ایسے مال سے خریدا ہے جس پر خمس واجب نہیں ہوتا اور 30 فی صد احتمال دے کہ اسے سال کی در آمد سے خریدا ہو احتیاط لازم ہے کہ 30 ہزار تومان کا خمس جو 6 ہزار تومان ہوگا ادا کرے اور اس طریقے سے حاکم شرع سے مصالحہ کرے لیکن اگر سامان خود یا اس کا بدل موجود نہ ہو تو اس کا خمس دینا یا حاکم شرع سے مصالحہ کرنا لازم نہیں ہے مگر یہ کہ مکلف اس موضوع میں مقصّر (کوتاہی کرنے والا) رہا ہو تو اس صورت میں بھی احتیاط واجب کی بنا پر احتمال كی نسبت سے حاکم شرع سے مصالحہ کرے۔

[279] کہ اس صورت میں اگر کوئی عذر نہ رکھتا ہو تو اس نے گناہ کیا ہے۔

[280] البتہ مکلف کے لیے خمس کی تاریخ کا تبدیل کرنا جیسا کہ مسئلہ نمبر 2303 میں بیان ہوا ممکن ہے۔

[281] اس مسئلے میں گذشتہ سال كی درآمد سے مراد وہ پیسہ ہے جس پر سال گزر گیا اور اس پر خمس واجب ہو چکا ہو اور انسان نے اس کا خمس ادا نہ کیا ہو۔

[282] ثمن سے مراد معاملے میں قیمتی چیز ہے جو بہت سے مقامات میں پیسہ ہوا کرتی ہے۔

[283] بعض معاملات میں ممکن ہے اس کے انجام دیتے وقت معاملہ، معین و مشخص قیمت کے مقابل میں واقع ہو مثلاً خریدار ، معاملہ انجام دیتے وقت بیچنے والے کو ایک خاص پیسہ دکھائے یا اس کے لیے اس پیسے کی وضاحت کرے اور کہے: اس پیسے سے تمہارا سامان خرید رہے ہیں ایسے مقامات میں کہ معمولاً کم اتفاق ہوتا ہے کہا جاتا ہے کہ معاملہ شخصی ہے۔
لیکن اکثر معاملات اس طرح نہیں ہیں اور معاملہ طرفین کے درمیان مشخص ثمن اور پیسے پر واقع نہیں ہوتا بلکہ خریدار ، سامان خریدنے کے بعد معاملے کی قیمت جو اس کے ذمے ہے ادا کرتا ہے مثلاً سامان کو دس ہزار ریال کا خریدا ہے (بغیر یہ کہ خریدتے وقت بیچنے والے کےلیے کسی خاص دس ہزار کو معین کرے اور معاملے کو اس دس ہزار پر انجام دے) پھر دس ہزار ریال اپنے جیب سے نکال کے دیتا ہے یا وہ دس ہزار جو اس کی نظر میں تھا اسے دیتا ہے ا یسے مقامات میں کہا جاتا ہے معاملہ کی قیمت کلی فی الذمہ ہے ۔
قابلِ ذکر ہے کہ جن معاملات میں قیمت کلی فی الذمہ ہے فرق نہیں ہے کہ قیمت کو اسی معاملے کی جگہ پر ادا کرے مثلاً کچھ لمحے بعد یا کسی اور وقت ادا کرے اور اس میں بھی فرق نہیں ہے کہ خریدار نے پیسے کو اپنی نظر میں مشخص کر رکھا ہو یا مشخص نہ کیا ہو۔

[284] وہ خمس جو اس پر واجب تھا خریدے ہوئے مال پر منتقل نہیں ہوگا بلکہ اس درآمد کا خمس جس پر سال گزر گیا ہے اور بیچنے والے کو قیمت کے طور پر دیا ہے، ادا کرے اور اگر وہ درآمد پیسہ كی شكل میں ہو اور اس پیسے کی اہمیت اور قیمت حد سے زیادہ مثلاً 20 برابر کم ہوگئی ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اور مزید رقم پر مصالحہ کرے۔

[285] جیسے وہ شخص جسے اجمالی طور پر معلوم ہو کہ اس کے مال پر خمس واجب ہوا ہے لیکن خمس کی مقدار کو حساب کرنے اور اسے یاد داشت کرنے میں کوتاہی کی ہو یا یہ کہ اس کے مال میں جتنی مقدار خمس تھا اسے معلوم رہا ہو لیکن اس کو یادداشت کرنے میں کوتاہی کی ہو اور اب خمس کی مقدار کو بھول گیا ہو۔
در آمد کے خمس سے متعلق بعض دوسرے احکام ← → خمس نہ دئے ہوئے مال میں تصرف کرنا
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français