مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل

واجب غسل ← → مُطہّرات

عبادات (وضو)

مسئلہ (۲۳۵) وضومیں واجب ہے کہ چہرہ اوردونوں ہاتھ دھوئے جائیں اورسر کے اگلے حصے اوردونوں پاؤں کے سامنے والے حصے کامسح کیاجائے۔

مسئلہ (۲۳۶)چہرے کولمبائی میں پیشانی کے اوپراس جگہ سے لے کرجہاں سر کے بال اگتے ہیں ٹھوڑی کے آخری کنارے تک دھوناضروری ہے اورچوڑائی میں بیچ کی انگلی اور انگوٹھے کے پھیلاؤمیں جتنی جگہ آجائے اسے دھوناضروری ہے۔ اگراس مقدار کا ذرا سا حصہ بھی چھوٹ جائے تووضوباطل ہے اور اگر انسان کویہ یقین نہ ہوکہ ضروری حصہ پورا دھل گیاہے تویقین کرنے کے لئے تھوڑاتھوڑاادھرادھر سے دھونابھی ضروری ہے۔

مسئلہ (۲۳۷) اگرکسی شخص کے ہاتھ یاچہرہ عام لوگوں کی بہ نسبت بڑے یاچھوٹے ہوں تواسے دیکھناچاہئے کہ عام لوگ کہاں تک اپناچہرہ دھوتے ہیں اورپھروہ بھی اتنا ہی دھو ڈالے۔اس کےعلاوہ اگراس کی پیشانی پربال اگے ہوں یاسرکے اگلے حصے پربال نہ ہوں تواسے چاہئے کہ عام اندازے کے مطابق پیشانی دھوڈالے۔

مسئلہ (۲۳۸) اگراس بات کااحتمال ہوکہ کسی شخص کی بھوؤں ، آنکھ کے گوشوں اور ہونٹوں پرمیل یاکوئی دوسری چیزہے جوپانی کے ان تک پہنچنے میں مانع ہے اور اس کا یہ احتمال لوگوں کی نظروں میں درست ہوتو اسے وضو سے پہلے تحقیق کرلینی چاہئے اور اگر کوئی ایسی چیزہوتواسے دورکرناچاہئے۔

مسئلہ (۲۳۹)اگرچہرے کی جلدبالوں کے نیچے سے نظرآتی ہوتوپانی جلدتک پہنچانا ضروری ہے اوراگرنظرنہ آتی ہوتوبالوں کادھوناکافی ہے اوران کے نیچے تک پانی پہنچانا ضروری نہیں ۔

مسئلہ (۲۴۰)اگرکسی شخص کوشک ہوکہ آیااس کے چہرے کی جلدبالوں کے نیچے سے نظرآتی ہے یانہیں تو(احتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ بالوں کودھوئے اور پانی جلد تک بھی پہنچائے۔

مسئلہ (۲۴۱)ناک کے اندرونی حصے اورہونٹوں اورآنکھوں کے ان حصوں کاجو بندکرنے پرنظرنہیں آتے دھوناواجب نہیں ہے۔ لیکن اگرکسی انسان کویہ یقین نہ ہوکہ جن جگہوں کادھوناضروری ہے ان میں کوئی جگہ باقی نہیں رہی توواجب ہے کہ ان اعضاء کا کچھ اضافی حصہ بھی دھولے تاکہ اسے یقین ہو جائے اور جس شخص کواس (مذکورہ) بات کا علم نہ ہواگراس نے جووضوکیاہے اس میں ضروری حصے دھونے یانہ دھونے کے بارے میں نہ جانتاہوتواس وضوسے اس نے جونماز پڑھی ہے وہ صحیح ہے اوربعدکی نمازوں کے لئے وضوکرناضروری نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۴۲)احتیاط لازم کی بناپرضروری ہے کہ ہاتھوں اوراسی طرح چہرے کو اوپر سے نیچے کی طرف دھویاجائے۔ اگرنیچے سے اوپرکی طرف دھوئے جائیں تووضو باطل ہوگا۔

مسئلہ (۲۴۳) اگرہتھیلی پانی سے ترکرکے چہرے اورہاتھوں پرپھیری جائے اور ہاتھ میں اتنی تری ہوکہ اسے پھیرنے سے پورے چہرے اورہاتھوں پرپانی پہنچ جائے تو کافی ہے۔ان پرپانی کابہناضروری نہیں ۔

مسئلہ (۲۴۴) چہرہ دھونے کے بعدپہلے دایاں ہاتھ اورپھربایاں ہاتھ کہنی سے انگلیوں کے سروں تک دھوناچاہئے۔

مسئلہ (۲۴۵) اگرانسان کویقین نہ ہوکہ کہنی کوپوری طرح دھولیاہے تویقین کرنے کے لئے کہنی سے اوپر کاکچھ حصہ دھونابھی ضروری ہے۔

مسئلہ (۲۴۶)جس شخص نے چہرہ دھونے سے پہلے اپنے ہاتھوں کوکلائی کے جوڑ تک دھویاہواسے چاہئے کہ وضو کرتے وقت انگلیوں کے سروں تک دھوئے۔ اگروہ صرف کلائی کے جوڑتک دھوئے گاتواس کاوضوباطل ہوگا۔

مسئلہ (۲۴۷) وضو میں چہرے اورہاتھوں کاایک دفعہ دھوناواجب، دوسری دفعہ دھونا مستحب اورتیسری دفعہ یااس سے زیادہ باردھوناحرام ہے۔ ایک دفعہ دھونااس وقت مکمل ہوگاجب وضو کی نیت سے اتنا پانی چہرے یاہاتھ پرڈالے کہ وہ پانی پورے چہرے یا ہاتھ پرپہنچ جائے اوراحتیاطاً کوئی جگہ باقی نہ رہے، لہٰذا اگرپہلی دفعہ دھونے کی نیت سے دس باربھی پانی ڈالےتاکہ پانی ہر جگہ پہنچ جائے تواس میں کوئی حرج نہیں ہے یعنی جب تک مثلاً وضوکرنے یاچہرہ دھونے کی نیت نہ کرے پہلی باردھوناشمارنہیں ہوگا۔ لہٰذا اگر چاہے توچندبار چہرہ کودھولے اور آخری بارچہرہ دھوتے وقت وضوکی نیت کرسکتاہے، لیکن دوسری دفعہ دھونے میں نیت کا معتبرہونااشکال سے خالی نہیں ہے اوراحتیاط لازم یہ ہے کہ اگرچہ وضو کی نیت سے نہ بھی ہوایک دفعہ دھونے کے بعدایک بارسے زائد چہرے یاہاتھوں کونہ دھوئے۔

مسئلہ (۲۴۸) دونوں ہاتھ دھونے کے بعدسرکے اگلے حصے کامسح وضوکے پانی کی اس تری سے کرناچاہئے جوہاتھوں کولگی رہ گئی ہواوراحتیاط مستحب یہ ہے کہ مسح دائیں ہاتھ سے کیاجائے جواوپرسے نیچے کی طرف ہو۔

مسئلہ (۲۴۹)سرکے چارحصوں میں سے پیشانی سے ملاہواایک حصہ وہ مقام ہے جہاں مسح کرناچاہئے۔اس حصے میں جہاں بھی اورجس اندازسے بھی مسح کریں کافی ہے۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ طول میں ایک انگلی کی لمبائی کے لگ بھگ اورعرض میں تین ملی ہوئی انگلیوں کے لگ بھگ جگہ پرمسح کیاجائے۔

مسئلہ (۲۵۰)یہ ضروری نہیں کہ سرکامسح جلدپرکیاجائے بلکہ سرکے اگلے حصے کے بالوں پرکرنابھی درست ہے، لیکن اگرکسی کے سرکے بال اتنے لمبے ہوں کہ مثلاً اگر کنگھا کرے توچہرے پرگریں یاسرکے کسی دوسرے حصے تک جاپہنچیں توضروری ہے کہ وہ بالوں کی جڑوں پر مسح کرے اوراگروہ چہرے پرگرنے والے یاسر کے دوسرے حصوں تک پہنچنے والے بالوں کوآگے کی طرف جمع کرکے اس پر مسح کرے گایاسرکے دوسرے حصوں کے بالوں پرجوآگےبڑھ آئے ہوں مسح کرے گا تو ایسامسح باطل ہے۔

مسئلہ (۲۵۱)سرکے مسح کے بعدوضوکے پانی کی اس تری سے جوہاتھوں میں باقی ہوپاؤں کی کسی ایک انگلی سے لے کرپاؤں کے جوڑتک مسح کرناضروری ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر پیر کے اوپری حصہ کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کافی نہیں ہے اوراحتیاط مستحب یہ ہے کہ دائیں پیرکادائیں ہاتھ سے اوربائیں پیرکابائیں ہاتھ سے مسح کیا جائے۔

مسئلہ (۲۵۲)پاؤں پرمسح کاعرض جتنابھی ہوکافی ہے، لیکن بہترہے کہ تین جڑی ہوئی انگلیوں کی چوڑائی کے برابرہواوراس سے بھی بہتریہ ہے کہ پاؤں کے اوپری حصے کا مسح پوری ہتھیلی سے کیاجائے۔

مسئلہ (۲۵۳) لازم نہیں ہے کہ پاؤں کامسح کرتے وقت ہاتھ انگلیوں کے سروں پر رکھے اورپھرپاؤں کے ابھارکی جانب کھینچے بلکہ پوراہاتھ پاؤں پررکھ کرتھوڑاساکھینچ سکتا ہے۔

مسئلہ (۲۵۴) سراورپاؤں کامسح کرتے وقت ہاتھ ان پرکھینچناضروری ہے اور اگر ہاتھ کوساکن رکھے اور سریاپاؤں کواس پرچلائے توباطل ہے، لیکن ہاتھ کھینچنے کے وقت سر اور پاؤں معمولی حرکت کریں توکوئی حرج نہیں ۔

مسئلہ (۲۵۵)جس جگہ کامسح کرناہووہ خشک ہونی چاہئے۔ اگروہ اس قدرترہوکہ ہتھیلی کی تری اس پراثرنہ کرے تومسح باطل ہے۔لیکن اگراس پرنمی ہویاتری اتنی کم ہو کہ وہ ہتھیلی کی تری سے ختم ہوجائے توپھرکوئی حرج نہیں ۔

مسئلہ (۲۵۶)اگرمسح کرنے کے لئے ہتھیلی پرتری باقی نہ رہی ہوتواسے دوسرے پانی سے ترنہیں کیاجاسکتابلکہ ایسی صورت میں اپنی ڈاڑھی کی تری لے کراس سے مسح کرنا چاہئے اورڈاڑھی کے علاوہ اورکسی جگہ سے تری لے کرمسح کرنامحل اشکال ہے۔

مسئلہ (۲۵۷) اگرہتھیلی کی تری صرف سرکے مسح کے لئے کافی ہوتواحتیاط واجب یہ ہے کہ سر کامسح اس تری سے کیاجائے اورپاؤں کے مسح کے لئے اپنی ڈاڑھی سے تری حاصل کرے۔

مسئلہ (۲۵۸)موزے اورجوتے پرمسح کرناباطل ہے۔ ہاں اگرسخت سردی کی وجہ سے یاچوریادرندے وغیرہ کے خوف سے جوتے یاموزے نہ اتارے جاسکیں تواحتیاط واجب یہ ہے کہ موزے اورجوتے پرمسح کرے اورتیمم بھی کرے اورتقیہ کی صورت میں موزے اورجوتے پرمسح کرناکافی ہے۔

مسئلہ (۲۵۹)اگرپاؤں کااوپروالاحصہ نجس ہواورمسح کرنے کے لئے اسے دھویا بھی نہ جاسکتاہوتوتیمم کرناضروری ہے۔



ارتماسی وضو

مسئلہ (۲۶۰)ارتماسی وضویہ ہے کہ انسان چہرے اورہاتھوں کووضوکی نیت سے پانی میں ڈبودے۔بظاہر ارتماسی طریقے سے دھلے ہوئے ہاتھ کی تری سے مسح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن ایساکرناخلاف احتیاط ہے۔

مسئلہ (۲۶۱)ارتماسی وضومیں بھی چہرہ اورہاتھ اوپرسے نیچے کی طرف دھونے چاہئیں ۔ لہٰذاجب کوئی شخص وضو کی نیت سے چہرہ اورہاتھ پانی میں ڈبوئے توضروری ہے کہ چہرہ پیشانی کی طرف سے اورہاتھ کہنیوں کی طرف سے ڈبوئے۔

مسئلہ (۲۶۲)اگرکوئی شخص بعض اعضاء کاوضوارتماسی طریقے سے اوربعض غیر ارتماسی(یعنی ترتیبی) طریقے سے کرے توکوئی حرج نہیں ۔

وہ دعائیں جن کاوضو کرتے وقت پڑھنامستحب ہے

مسئلہ (۲۶۳)جوشخص وضوکررہا ہو اس کے لئے مستحب ہے کہ جب اس کی نظر پانی پرپڑے تویہ دعاپڑھے:

بِسْمِ اللہِ وَبِاللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ الْمَاءَ طَھُوْراًوَّلَمْ یَجْعَلْہُ نَجِساً۔

جب وضوسے پہلے اپنے ہاتھ دھوئے تویہ دعاپڑھے:

بِسْمِ اللہِ وَبِاللّٰہِ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ۔

کلی کرتے وقت یہ دعاپڑھے:

اَللّٰھُمَّ لَقِّنِیْ حُجَّتِیْ یَوْمَ اَلْقَاکَ وَاَطْلِقْ لِسَانِیْ بِذِکْرِکَ۔

ناک میں پانی ڈالتے وقت یہ دعاپڑھے:

اَللّٰھُمَّ لاَ تُحَرِّمْ عَلَیَّ رِیْحَ الْجَنَّۃِ وَاجْعَلْنِیْ مِمَّنْ یَّشُمُّ رِیْحَھَاوَرَوْحَھَاوَطِیْبَھَا۔

چہرہ دھوتے وقت یہ دعاپڑھے:

اَللّٰھُمَّ بَیِّضْ وَجْھِیْ یَوْمَ تَسْوَدُّفیہ الْوُجُوْہُ وَلاَ تُسَوِّدْ وَجْھِیْ یَوْمَ تَبْیَضُّ الْوُجُوْہُ

دایاں ہاتھ دھوتے وقت یہ دعاپڑھے:

اَللّٰھُمَّ اَعْطِنِیْ کِتَابِیْ بِیَمِیْنِیْ وَالْخُلْدَ فِی الْجِنَانِ

بِیَسَارِیْ وَحَاسِبْنِیْ حِسَاباً یَّسِیْراً۔

بایاں ہاتھ دھوتے وقت یہ دعاپڑھے:

اَللّٰھُمَّ لاَتُعْطِنِیْ کِتَابِیْ بِشِمَالِیْ وَلَامِنْ وَّرَاءِ ظَھْرِیْ وَلاَتَجْعَلْھَا مَغْلُوْلَۃً اِلیٰ عُنُقِیْ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ مُّقَطَّعَاتِ النِّیْرَانِ۔

سرکامسح کرتے وقت یہ دعاپڑھے:

اَللّٰھُمَّ غَشِّنِیْ بِرَحْمَتِکَ وَبَرَکَاتِکَ وَعَفْوِکَ۔

پاؤں کامسح کرتے وقت یہ دعاپڑھے:

اَللّٰھُمَّ ثَبِّتْنِیْ عَلَی الصِّرَاطِ یَوْمَ تَزِلُّ فِیْہِ الْاَقْدَامُ وَاجْعَلْ سَعْیِیْ فِیْ مَایُرْضِیْکَ عَنِّیْ یَاذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ۔

وضوصحیح ہونے کی شرائط

وضوصحیح ہونے کی چندشرائط ہیں :

(پہلی شرط:) وضو کاپانی پاک ہو۔احتیاط واجب کی بناء پر وضو کا پانی ان چیزوں سے آلودہ نہ ہو جن کو انسان کی طبیعت پسند نہ کرے مثلاً حلال گوشت حیوان کےپیشاب، پاک مردار، زخم کی چرک(ریم) گرچہ شرعا وہ پاک ہے۔

(دوسری شرط:) پانی مطلق ہو۔

مسئلہ (۲۶۴)نجس یامضاف پانی سے وضوکرناباطل ہے خواہ وضوکرنے والاشخص اس کے نجس یامضاف ہونے کے بارے میں علم نہ رکھتاہویابھول گیاہوکہ یہ نجس یا مضاف پانی ہے۔لہٰذااگروہ ایسے پانی سے وضوکرکے نماز پڑھ چکاہوتوصحیح وضوکرکے دوبارہ نمازپڑھناضروری ہے۔

مسئلہ (۲۶۵)اگرایک شخص کے پاس مٹی ملے ہوئے مضاف پانی کے علاوہ اور کوئی پانی وضوکے لئے نہ ہواورنمازکاوقت تنگ ہوتوضروری ہے کہ تیمم کرلے، لیکن اگروقت تنگ نہ ہوتوضروری ہے کہ پانی کے صاف ہونے کاانتظارکرے یاکسی طریقے سے اس پانی کوصاف کرے اور وضو کرے۔لیکن مٹی ملے پانی کو مضاف اسی وقت کہاجائے گا جب اسے پانی نہ کہاجاسکے۔

(تیسری شرط:) وضو کاپانی مباح ہو۔

مسئلہ (۲۶۶)ایسے پانی سے وضوکرناجوغصبی ہویاجس کے بارے میں علم نہ ہوکہ اس کامالک اس کے استعمال پرراضی ہے یانہیں حرام اورباطل ہے۔اس کےعلاوہ اگرچہرے اورہاتھوں سے وضوکاپانی غصب کی ہوئی جگہ پرگرتاہویاوہ جگہ جس میں وضو کر رہاہے غصبی ہے اوروضوکرنے کے لئے کوئی اور جگہ بھی نہ ہوتومتعلقہ شخص کافریضہ تیمم ہے اوراگرکسی دوسری جگہ وضوکرسکتاہوتوضروری ہے کہ دوسری جگہ وضوکرے۔لیکن اگر دونوں صورتوں میں گناہ کاارتکاب کرتے ہوئے اسی جگہ وضوکرلے تواس کاوضو صحیح ہے۔

مسئلہ (۲۶۷)کسی مدرسے کے ایسے حوض سے وضوکرنے میں کوئی حرج نہیں جس کے بارے میں یہ علم نہ ہوکہ آیاوہ تمام لوگوں کے لئے وقف کیاگیاہے یاصرف مدرسے کے طلباء کے لئے وقف ہے اور صورت یہ ہوکہ لوگ عموماً اس حوض سے وضو کرتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتاہو۔

مسئلہ (۲۶۸)اگرکوئی شخص ایک مسجد میں نماز پڑھنانہ چاہتاہواوریہ بھی نہ جانتا ہو کہ آیااس مسجدکا حوض تمام لوگوں کے لئے وقف ہے یاصرف ان لوگوں کے لئے جو اس مسجد میں نماز پڑھتے ہیں تواس کے لئے اس حوض سے وضو کرنادرست نہیں ، لیکن اگرعموماً وہ لوگ بھی اس حوض سے وضو کرتے ہوں جواس مسجد میں نمازنہ پڑھناچاہتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتاہوتووہ شخص بھی اس حوض سے وضو کرسکتاہے۔

مسئلہ (۲۶۹)سرائے، مسافرخانوں اورایسے ہی دوسرے مقامات کے حوض سے ان لوگوں کاجوان میں مقیم نہ ہوں ، وضوکرنااسی صورت میں درست ہے جب عموماً ایسے لوگ بھی جووہاں مقیم نہ ہوں اس حوض سے وضوکرتے ہوں اورکوئی منع نہ کرتاہو۔

مسئلہ (۲۷۰)ان نہروں سے وضو کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے جن کے سلسلہ میں بغیر مالک کی اجازت کے جواز استعمال پر بناء عقلا ہے نہر( خواہ چھوٹی ہو یا بڑی) اگرچہ انسان نہ جانتا ہو کہ ان کامالک راضی ہے یانہیں ۔لیکن اگران نہروں کامالک وضوکرنے سے منع کرے یامعلوم ہوکہ وہ ان سے وضوکرنے پر راضی نہیں یاان کامالک نابالغ یاپاگل ہوتب بھی ان نہروں کااستعمال جائز ہے۔

مسئلہ (۲۷۱)اگرکوئی شخص یہ بھول جائے کہ پانی غصبی ہے اوراس سے وضو کرلے تواس کاوضو صحیح ہے۔ لیکن اگرکسی شخص نے خودپانی غصب کیاہواوربعدمیں بھول جائے کہ یہ پانی غصبی ہے اوراس سے وضوکرلے تواس کاوضوصحیح ہونے میں اشکال ہے۔

مسئلہ (۲۷۲)اگروضو کاپانی اس کی ملکیت میں ہے مگر برتن غصبی ہو اور اس کے علاوہ دوسرا پانی نہ ہوتو اگر شرعی طور سے اس پانی کو کسی دوسرے برتن میں نکال لینا ممکن ہوتو ضروری ہے کہ نکالے اور وضو کرے اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو تیمم کرنا ضروری ہے لیکن اگر دوسرا پانی ہے تو ضروری ہے کہ اس سے وضو کرے اور دونوں صورتوں میں اگر اس نے مخالفت کیا اور غصبی برتن کے پانی سے وضو کرلیا تو اس کا وضو صحیح ہے۔

مسئلہ (۲۷۳) جس حوض کی ایک اینٹ یاایک پتھر غصبی ہو اگر عرف میں اس سے پانی نکالنا اینٹ یا پتھر کااستعمال نہ سمجھا جاتا ہو تو اشکال نہیں ہے لیکن اگر اینٹ یا پتھر کا استعمال سمجھا جاتاہوتوپانی نکالنا حرام ہے مگر وضو صحیح ہے۔

مسئلہ (۲۷۴) اگر کسی امام یا امام زادہ کے صحن میں جو پہلے قبرستان رہا ہو ایک حوض یا نہر بنادی جائے اور انسان کو معلوم نہ ہو کہ صحن کی زمین کو خاص طورسے قبرستان کے لئے وقف کیا تھا تواس حوض یانہر سے وضو کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

(چوتھی شرط:):وضو کے اعضاء دھوتے اور مسح کرتے وقت پاک ہوں خواہ انہیں دوران وضو ہی دھونے یا مسح کرنے سےپہلے پاک کرے اور اگر آب کر یا اس کے جیسے پانی سے وضو کررہاہوتو دھونے سے پہلے پاک کرنا ضروری نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۷۵) اگروضومکمل ہونے سے پہلے وہ مقام نجس ہوجائے جسے دھویاجا چکا ہے یاجس کامسح کیاجاچکاہے تووضوصحیح ہے۔

مسئلہ (۲۷۶) اگراعضائے وضوکے سوابدن کاکوئی حصہ نجس ہوتووضوصحیح ہے، لیکن اگرپاخانے یاپیشاب کے مقام کوپاک نہ کیاہوتوپھراحتیاط مستحب یہ ہے کہ پہلے انہیں پاک کرے اورپھروضوکرے۔

مسئلہ (۲۷۷)اگروضوکے اعضاء میں سے کوئی عضونجس ہواوروضوکرنے کے بعد متعلقہ شخص کو شک ہو کہ آیاوضوکرنے سے پہلے اس عضوکودھویاتھایانہیں تووضو صحیح ہے، لیکن اس نجس مقام کودھو لیناضروری ہے۔

مسئلہ (۲۷۸) اگرکسی کے چہرے یاہاتھوں پرکوئی ایسی خراش یازخم ہوجس سے خون نہ رکتاہواور پانی اس کے لئے مضرنہ ہوتوضروری ہے کہ اس عضوکے صحیح سالم اجزاء کو ترتیب واردھونے کے بعدزخم یاخراش والے حصے کوکرپانی یاجاری پانی میں ڈبو دے اور اسے اس قدردبائے کہ خون بندہوجائے اور پانی کے اندرہی اپنی انگلی زخم یاخراش پررکھ کراوپرسے نیچے کی طرف کھینچے تاکہ اس (خراش یازخم) پرپانی جاری ہوجائےپھر اس کے بعد والے حصہ کو دھولے اس طرح اس کاوضوصحیح ہوجائے گا۔

(پانچویں شرط:) وضوکرنے اورنمازپڑھنے کے لئے وقت کافی ہو۔

مسئلہ (۲۷۹)وقت اتناتنگ ہوکہ اگر وضوکرے توساری نمازیااس کاکچھ حصہ وقت کے بعدپڑھناپڑے توضروری ہے کہ تیمم کرلے، لیکن اگرتیمم اوروضوکے لئے تقریباً یکساں وقت درکارہوتوپھروضوکرے۔

مسئلہ (۲۸۰)جس شخص کے لئے نماز کاوقت تنگ ہونے کے باعث تیمم کرنا ضروری ہواگروہ قصدقربت کی نیت سے یاکسی مستحب کام( مثلاً قرآن مجیدپڑھنے کے لئے ) وضوکرے تواس کاوضوصحیح ہے اوراگراسی نماز کوپڑھنے کے لئے وضوکرے توبھی یہی حکم ہے، لیکن اسے قصدقربت حاصل نہ ہو۔

(چھٹی شرط:) وضوبقصد قربت یعنی اللہ تعالیٰ کی قربت کے لئے کیا جائے۔اور کافی ہے کہ اللہ کے حکم کی اطاعت کے قصدسے بجالایا جائے اگر اپنے کوٹھنڈک پہنچانے یاکسی اورنیت سے کیاجائے تووضوباطل ہے۔

مسئلہ (۲۸۱)وضوکی نیت زبان سے یادل میں کرناضروری نہیں بلکہ اگرایک شخص وضو کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کے حکم پرعمل کرنے کی نیت سے بجالائے توکافی ہے۔

(ساتویں شرط:) وضواس ترتیب سے کیاجائے جس کاذکراوپرہوچکاہے یعنی پہلے چہرہ اوراس کے بعددایاں اورپھربایاں ہاتھ دھویاجائے اس کے بعدسرکااورپھرپاؤں کا مسح کیاجائے اوراحتیاط مستحب یہ ہے کہ دونوں پاؤں کاایک ساتھ مسح نہ کیا جائے بلکہ بائیں پاؤں کامسح دائیں پاؤں کے بعدکیاجائے۔

(آٹھویں شرط:) وضوکے افعال پے درپے انجام دے۔

مسئلہ (۲۸۲)اگروضوکے افعال کے درمیان اتنافاصلہ ہوجائے کہ عرف عام میں متواتردھونانہ کہلائے تو وضوباطل ہے، لیکن اگرکسی شخص کوکوئی عذرپیش آجائے( مثلاً یہ کہ بھول جائے یاپانی ختم ہوجائے) تواس صورت میں بلافاصلہ دھونے کی شرط معتبرنہیں ہے۔ بلکہ وضوکرنے والاشخص جس وقت چاہے کسی عضو کودھولے یااس کامسح کرلے تواس اثنا میں اگران مقامات کی تری خشک ہوجائے جنہیں وہ پہلے دھوچکاہویاجس کامسح کرچکا ہو تووضوباطل ہوگا،لیکن اگرجس عضوکودھوناہے یامسح کرناہے صرف اس سے پہلے دھوئے ہوئے یامسح کئے ہوئے عضوکی تری خشک ہوگئی ہومثلاً جب بایاں ہاتھ دھوتے وقت دائیں ہاتھ کی تری خشک ہوچکی ہولیکن چہرہ ترہوتووضو صحیح ہے۔

مسئلہ (۲۸۳)اگرکوئی شخص وضوکے افعال بلافاصلہ انجام دے، لیکن گرم ہوایا بدن کی حرارت یاکسی اورایسی ہی وجہ سے پہلی جگہوں کی تری (یعنی ان جگہوں کی تری جنہیں وہ پہلے دھوچکاہویاجن کامسح کرچکاہو)خشک ہوجائے تواس کاوضو صحیح ہے۔

مسئلہ (۲۸۴) وضو کے دوران چلنے پھرنے میں کوئی حرج نہیں لہٰذااگرکوئی شخص چہرہ اورہاتھ دھونے کے بعدچندقدم چلے اورپھرسراورپاؤں کامسح کرے تواس کاوضو صحیح ہے۔

(نویں شرط:) انسان خوداپناچہرہ اورہاتھ دھوئے اورپھرسراور پاؤں کامسح کرے۔ اگرکوئی دوسرااسے وضوکرائے یااس کے چہرے یاہاتھوں پرپانی ڈالنے یاسر اور پاؤں کامسح کرنے میں اس کی مددکرے تواس کاوضوباطل ہے۔

مسئلہ (۲۸۵)اگرکوئی شخص خودوضونہ کرسکتاہوتوکسی دوسرے شخص سے مددلے لے اگرچہ دھونے اور مسح کرنے میں حتی الامکان دونوں کی شرکت ضروری ہے اور اگروہ شخص اجرت مانگے تواگراس کی ادائیگی کرسکتاہواورایساکرنااس کے حالات کےلئے نقصان دہ نہ ہوتواجرت اداکرناضروری ہے۔ نیز ضروری ہے کہ وضو کی نیت خودکرے اور اپنے ہاتھ سے مسح کرے اوراگرخوددوسرے کے ساتھ شرکت نہ کر سکتاہو تو ضروری ہے کہ کسی دوسرے شخص سے مددلے جواسے وضوکروائے یااس صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ دونوں وضوکی نیت کریں اوراگریہ ممکن نہ ہوتوضروری ہے کہ اس کانائب اس کا ہاتھ پکڑکراس کی مسح کی جگہوں پر ہاتھ پھیرے اوراگریہ بھی ممکن نہ ہوتوضروری ہے کہ نائب اس کے ہاتھ سے تری حاصل کرے اوراس تری سے اس کے سراورپاؤں پرمسح کرے۔

مسئلہ (۲۸۶)وضوکے جوافعال بھی انسان بذات خودانجام دے سکتاہوضروری ہے کہ انہیں انجام دینے کے لئے دوسروں کی مددنہ لے۔

(دسویں شرط:) وضوکرنے والے کے لئے پانی کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

مسئلہ (۲۸۷)جس شخص کوخوف ہوکہ وضوکرنے سے بیمارہوجائے گایااس پانی سے وضوکرے گاتو پیاسارہ جائے گااس کافریضہ وضونہیں ہے اوراگراسے علم نہ ہوکہ پانی اس کے لئے مضرہے اوروہ وضوکرلے اوراسے وضوکرنے سے نقصان پہنچے تواس کاوضو باطل ہے۔

مسئلہ (۲۸۸)اگرچہرے اورہاتھوں کواتنے کم پانی سے دھوناجس سے وضو صحیح ہو جاتا ہوضرررساں نہ ہواوراس سے زیادہ ضرررساں ہوتوضروری ہے کہ کم مقدارسے ہی وضوکرے۔

(گیارہویں شرط:) وضوکے اعضاء تک پانی پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

مسئلہ (۲۸۹)اگرکسی شخص کومعلوم ہوکہ اس کے اعضاء پرکوئی چیزلگی ہوئی ہے، لیکن اس بارے میں اسے شک ہوکہ آیاوہ چیزپانی کے ان اعضاء تک پہنچنے میں مانع ہے یانہیں تو ضروری ہے کہ یاتواس چیزکوہٹادے یاپانی اس کے نیچے تک پہنچائے۔

مسئلہ (۲۹۰)اگرناخن کے نیچے میل ہوتووضودرست ہے،لیکن اگرناخن کاٹا جائے اوراس میل کی وجہ سے پانی کھال تک نہ پہنچے تووضو کے لئے اس میل کادورکرنا ضروری ہے۔اس کےعلاوہ اگرناخن معمول سے زیادہ بڑھ جائیں توجتناحصہ معمول سے زیادہ بڑھا ہواہواس کے نیچے سے میل نکالناضروری ہے۔

مسئلہ (۲۹۱)اگرکسی شخص کے چہرے، ہاتھوں ، سرکے اگلے حصے یاپاؤں کے اوپر والے حصے جل جانے سے یاکسی اوروجہ سے ورم ہوجائے تواسے دھولینااوراس پر مسح کرلیناکافی ہے اوراگراس میں سوراخ ہوجائے توپانی جلدکے نیچے پہنچاناضروری نہیں بلکہ اگرجلدکاایک حصہ اکھڑجائے تب بھی یہ ضروری نہیں کہ جوحصہ نہیں اکھڑااس کے نیچے تک پانی پہنچایاجائے، لیکن جب اکھڑی ہوئی جلدکبھی بدن سے چپک جاتی ہواور کبھی اوپر اٹھ جاتی ہوتوضروری ہے کہ یاتواسے کاٹ دے یااس کے نیچے پانی پہنچائے۔

مسئلہ (۲۹۲)اگرکسی شخص کوشک ہوکہ اس کے وضوکے اعضاء سے کوئی چیزچپکی ہوئی ہے یانہیں اوراس کایہ احتمال لوگوں کی نظر میں بھی درست ہومثلاً گارے سے کوئی کام کرنے کے بعدشک ہوکہ گارااس کے ہاتھ سے لگارہ گیاہے یانہیں توضروری ہے کہ تحقیق کرلے یاہاتھ کواتناملے کہ اطمینان ہوجائے کہ اگراس پرگارالگارہ گیاتھاتودورہو گیا ہے یاپانی اس کے نیچے پہنچ گیاہے۔

مسئلہ (۲۹۳)جس جگہ کودھوناہویاجس کامسح کرناہواگراس پرمیل ہولیکن وہ میل پانی کی جلدتک پہنچنے میں رکاوٹ نہ ڈالے توکوئی حرج نہیں ۔ اسی طرح اگرپلستروغیرہ کا کام کرنے کے بعدسفیدی ہاتھ پرلگی رہ جائے جوپانی کوجلدتک پہنچنے سے نہ روکے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ۔لیکن اگرشک ہوکہ ان چیزوں کی موجودگی پانی کی جلدتک پہنچنے میں مانع ہے یانہیں توانہیں دورکرناضروری ہے۔

مسئلہ (۲۹۴)اگرکوئی شخص وضوکرنے سے پہلے جانتاہوکہ وضوکے بعض اعضاء پر ایسی چیزموجودہے جو ان تک پانی پہنچنے میں مانع ہے اوروضوکے بعدشک کرے کہ وضو کرتے وقت پانی ان اعضاء تک پہنچایاہے یانہیں تواس کاوضوصحیح ہے۔

مسئلہ (۲۹۵)اگروضوکے بعض اعضاء میں کوئی ایسی رکاوٹ ہوجس کے نیچے پانی کبھی توخودبخودچلاجاتاہواورکبھی نہ پہنچتاہواورانسان وضوکے بعدشک کرے کہ پانی اس کے نیچے پہنچاہے یانہیں جب کہ وہ جانتاہوکہ وضوکے وقت وہ اس رکاوٹ کے نیچے پانی پہنچنے کی جانب متوجہ نہ تھاتواحتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضوکرے۔

مسئلہ (۲۹۶)اگرکوئی شخص وضوکرنے کے بعدوضوکے اعضاء پرکوئی ایسی چیز دیکھے جوپانی کے بدن تک پہنچنے میں مانع ہواوراسے یہ معلوم نہ ہوکہ وضوکے وقت یہ چیز موجودتھی یابعدمیں پیداہوئی تواس کاوضوصحیح ہے، لیکن اگروہ جانتاہوکہ وضوکرتے وقت وہ اس رکاوٹ کی جانب متوجہ نہ تھاتواحتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضوکرے۔

مسئلہ (۲۹۷)اگرکسی شخص کووضوکے بعدشک ہوکہ جوچیزپانی کے پہنچنے میں مانع ہے وضوکے اعضاء پرتھی یانہیں تواس کاوضوصحیح ہے۔

وضوکے احکام

مسئلہ (۲۹۸)اگرکوئی شخص وضوکے افعال اورشرائط مثلاً پانی کے پاک ہونے یا غصبی نہ ہونے کے بارے میں بہت زیادہ شک کرے تواسے چاہئے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مسئلہ (۲۹۹)اگرکسی شخص کوشک ہوکہ اس کاوضو باطل ہواہے یانہیں تواسے یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کاوضوباقی ہے، لیکن اگراس نے پیشاب کرنے کے بعداستبراء کئے بغیروضوکرلیاہواوروضوکے بعداس کے مخرج پیشاب سے ایسی رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں وہ یہ نہ جانتاہوکہ پیشاب ہے یاکوئی اورچیزتواس کاوضوباطل ہے۔

مسئلہ (۳۰۰)اگرکسی شخص کوشک ہوکہ اس نے وضوکیاہے یانہیں توضروری ہے کہ وضوکرے۔

مسئلہ (۳۰۱)جس شخص کومعلوم ہوکہ اس نے وضوکیاہے اوراس سے حدث بھی واقع ہوگیاہے( مثلاً اس نے پیشاب کیاہے) لیکن اسے یہ معلوم نہ ہوکہ کون سی بات پہلے واقع ہوئی ہے اگریہ صورت نماز سے پہلے پیش آئے تواسے چاہئے کہ وضوکرے اوراگرنماز کے دوران پیش آئے تونمازتوڑکروضوکرناضروری ہے اوراگرنماز کے بعدپیش آئے تو جو نمازوہ پڑھ چکاہے وہ صحیح ہے البتہ دوسری نمازوں کے لئے وضوکرناضروری ہے۔

مسئلہ (۳۰۲)اگرکسی کووضوکے بعدیاوضوکے دوران یقین ہوجائے کہ اس نے بعض جگہیں نہیں دھوئیں یاان کامسح نہیں کیااورجن اعضاء کوپہلے دھویاہویاان کامسح کیا ہوان کی تری زیادہ وقت گزرجانے کی وجہ سے خشک ہوچکی ہوتواسے چاہئے کہ دوبارہ وضو کرے، لیکن اگروہ تری خشک نہ ہوئی ہویاہواکی گرمی یاکسی ایسی وجہ سے خشک ہو گئی ہو توضروری ہے کہ جن جگہوں کے بارے میں بھول گیاہوانہیں اوران کے بعد آنے والی جگہوں کودھوئےیاان کامسح کرے اوراگروضوکے دوران کسی عضوکے دھونے یامسح کرنے کے بارے میں شک کرے تواسی حکم پرعمل کرناضروری ہے۔

مسئلہ (۳۰۳) اگرکسی شخص کونماز پڑھنے کے بعدشک ہوکہ اس نے وضوکیاتھا یا نہیں تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن آئندہ نمازوں کےلئے وضو کرنا ضروری ہے۔

مسئلہ (۳۰۴) اگرکسی شخص کونماز کے دوران شک ہوکہ آیااس نے وضو کیا تھا یا نہیں تو (احتیاط واجب کی بناء پر) وضو کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔

مسئلہ (۳۰۵) اگرکوئی شخص نمازکے بعدیہ سمجھے کہ اس کاوضوباطل ہوگیاتھا، لیکن شک ہو کہ اس کاوضو نماز سے پہلے باطل ہواتھایابعدمیں توجونمازپڑھ چکاہے وہ صحیح ہے۔

مسئلہ (۳۰۶)اگرکوئی شخص ایسے مرض میں مبتلاہوکہ اسے پیشاب کے قطرے گرتے رہتے ہوں یاپاخانہ روکنے پرقادرنہ ہوتواگراسے یقین ہوکہ نماز کے اول وقت سے لے کرآخروقت تک اسے اتناوقفہ مل جائے گاکہ وضوکرکے نمازپڑھ سکے توضروری ہے کہ اس وقفے کے دوران نمازپڑھ لے اوراگراسے صرف اتنی مہلت ملے جونماز کے واجبات اداکرنے کے لئے کافی ہوتواس دوران صرف نمازکے واجبات بجالانااور مستحب افعال مثلاً اذان، اقامت اورقنوت کوترک کردیناضروری ہے۔

مسئلہ (۳۰۷) اگرکسی شخص کو (بیماری کی وجہ سے) وضو کرکے نمازکاکچھ حصہ پڑھنے کی مہلت ملتی ہواورنمازکے دوران ایک دفعہ یاچنددفعہ اس کاپیشاب یاپاخانہ خارج ہوتا ہوتواحتیاط لازم یہ ہے کہ اس مہلت کے دوران وضوکرکے نمازپڑھے لیکن نمازکے دوران لازم نہیں ہے کہ پیشاب یاپاخانہ خارج ہونے کی وجہ سے دوبارہ وضوکرے۔

مسئلہ (۳۰۸)اگرکسی شخص کوپیشاب یاپاخانہ بارباریوں آتاہوکہ اسے وضو کرکے نمازکاکچھ حصہ پڑھنے کی بھی مہلت نہ ملتی ہوتو ایک وضوچندنمازوں کے لئے کافی ہے۔ ماسوااس کے کہ کسی دوسری چیز جیسے خواب یا فطری طور سے پیشاب یا پاخانہ اس سے خارج ہو اور بہتریہ ہے کہ ہرنمازکے لئے ایک باروضو کرے، لیکن قضاسجدے، قضاتشہداورنمازاحتیاط کے لئے دوسراوضوضروری نہیں ہے۔

مسئلہ (۳۰۹)اگرکسی شخص کوپیشاب یاپاخانہ باربارآتاہوتواس کے لئے ضروری نہیں کہ وضوکے بعدفوراًنمازپڑھے اگرچہ بہترہے کہ نمازپڑھنے میں جلدی کرے۔

مسئلہ (۳۱۰)اگرکسی شخص کوپیشاب یاپاخانہ باربارآتاہوتووضوکرنے کے بعداگر وہ نماز کی حالت میں نہ ہوتب بھی اس کے لئے قرآن مجیدکے الفاظ کوچھوناجائزہے۔

مسئلہ (۳۱۱)اگرکسی شخص کوقطرہ قطرہ پیشاب آتارہتاہوتواسے چاہئے کہ نماز کے لئے ایک ایسی تھیلی استعمال کرے جس میں روئی یاکوئی اورچیزرکھی ہوجوپیشاب کو دوسری جگہوں تک پہنچنے سے روکے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز سے پہلے نجس شدہ پیشاب کی جگہ کو دھولے۔ اس کے علاوہ جوشخص پاخانہ روکنے پرقادرنہ ہواسے چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو نماز پڑھنے تک پاخانے کودوسری جگہوں تک پھیلنے سے روکے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ اگرباعث زحمت نہ ہوتوہرنماز کے لئے مقعدکودھوئے۔

مسئلہ (۳۱۲)جوشخص پیشاب یاپاخانے کوروکنے پرقدرت نہ رکھتاہوتوجہاں تک ممکن ہونماز میں پیشاب یاپاخانے کوروکنا چاہیئے اور بہترہےکہ اسے روکے اگر چہ اس پرکچھ خرچ کرناپڑے بلکہ اس کا مرض اگرآسانی سے دورہوسکتاہوتو بہتر ہےکہ اپناعلاج کرائے۔

مسئلہ (۳۱۳)جوشخص اپناپیشاب یاپاخانہ روکنے پرقادرنہ ہواس کے لئے صحت یاب ہونے کے بعدیہ ضروری نہیں کہ جونمازیں اس نے مرض کی حالت میں اپنے وظیفہ کے مطابق پڑھی ہوں ان کی قضاکرے، لیکن اگراس کامرض نماز پڑھتے ہوئے دور ہو جائے تواحتیاط لازم کی بناپرضروری ہے کہ جونماز اس وقت پڑھی ہواسے دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ (۳۱۴)اگرکسی شخص کویہ عارضہ لاحق ہوکہ ریاح روکنے پرقادرنہ ہوتوضروری ہے کہ ان لوگوں کے وظیفہ کے مطابق عمل کرے جوپیشاب اورپاخانہ روکنے پرقدرت نہ رکھتے ہوں ۔

وہ چیزیں جن کے لئے وضوکرناچاہئے

مسئلہ (۳۱۵)چھ چیزوں کے لئے وضوکرناواجب ہے:

(اول:)واجب نمازوں کے لئے سوائے نمازمیت کے اورمستحب نمازوں میں وضوشرط صحت ہے۔

(دوم:) اس سجدے اورتشہدکے لئے جوایک شخص بھول گیاہوجب کہ ان کے اور نماز کے درمیان کوئی حدث اس سے سرزدہواہومثلاً اس نے پیشاب کیاہو، لیکن سجدئہ سہو کے لئے وضوکرناواجب نہیں ۔

(سوم:) خانۂ کعبہ کے واجب طواف کے لئے جو حج اورعمرہ کاجزہو۔

چہارم:) وضوکرنے کی منت مانی ہو یاعہدکیاہویاقسم کھائی ہو۔

(پنجم:) جب کسی نے منت مانی ہوکہ مثلاً قرآن مجید کابوسہ لے گا۔

(ششم:) نجس شدہ قرآن مجیدکودھونے کے لئے یابیت الخلاء وغیرہ سے نکالنے کے لئے جب کہ متعلقہ شخص مجبورہوکراس مقصدکے لئے اپناہاتھ یابدن کاکوئی اور حصہ قرآن مجید کے الفاظ سے مس کرے لیکن، وضومیں صرف ہونے والاوقت اگرقرآن مجید کو دھونے یااسے بیت الخلاء سے نکالنے میں اتنی تاخیر کاباعث ہوجس سے کلام اللہ کی بے حرمتی ہوتی ہوتوضروری ہے کہ وہ وضو کئے بغیر قرآن مجید کوبیت الخلاء وغیرہ سے باہر نکال لے یا اگرنجس ہوگیاہوتواسے دھوڈالے۔

مسئلہ (۳۱۶)جوشخص باوضو نہ ہواس کے لئے قرآن مجیدکے الفاظ کوچھونایعنی اپنے بدن کاکوئی حصہ قرآن مجید کے الفاظ سے لگاناحرام ہے، لیکن اگرقرآن مجید کافارسی زبان یاکسی اور زبان میں ترجمہ کیاگیاہوتواسے چھونے میں کوئی اشکال نہیں ۔

مسئلہ (۳۱۷)بچے اوردیوانے کوقرآن مجیدکے الفاظ کوچھونے سے روکناواجب نہیں ، لیکن اگران کے ایساکرنے سے قرآن مجیدکی توہین ہوتی ہوتوانہیں روکناضروری ہے۔

مسئلہ (۳۱۸)جوشخص باوضو نہ ہواس کے لئے اللہ کے ناموں اوران صفتوں کوچھونا جوصرف اسی کے لئے مخصوص ہیں خواہ کسی زبان میں لکھی ہوں ( احتیاط واجب کی بناپر) حرام ہے اور بہتریہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اورائمہ طاہرین علیہم الصلوٰۃ والسلام اور حضرت فاطمہ زہرا علیہاالسلام کے اسمائے مبارکہ کوبھی نہ چھوئے۔

مسئلہ (۳۱۹)انسان جس وقت بھی وضو کرے خواہ نماز کا وقت داخل ہونے سے قبل یا اس کےنزدیک یا فاصلہ سے یا وقت داخل ہونے کے بعد اگر قصد قربت سے ہے تو صحیح ہوگا اور اس کام کےلئے واجب و مستحب کی نیت ضروری نہیں ہے بلکہ اگرغلطی سے واجب کی نیت کرلے اور بعدمیں پتا چلے کہ واجب نہیں تھا تب بھی اس کا وضو صحیح ہے۔

مسئلہ (۳۲۰)اگرکسی شخص کویقین ہوکہ وقت داخل ہوچکاہے اورواجب وضو کی نیت کرے، لیکن وضوکرنے کے بعداسے پتا چلے کہ ابھی وقت داخل نہیں ہواتھا تو اس کا وضو صحیح ہے۔

مسئلہ (۳۲۱)اگر کسی شخص کا وضو ہوتو ہر نماز کے لئے دوبارہ وضو کرنا مستحب ہے اور بعض فقہاء نے فرمایا ہے کہ میت کی نماز کے لئے، قبرستان جانے کے لئے، مسجدیاائمہ علیہم السلام کے حرم میں جانے کے لئے، قرآن مجید ساتھ رکھنے، اسے پڑھنے، لکھنے اوراس کا حاشیہ چھونے کے لئے اور سونے کے لئے وضو کرنامستحب ہے لیکن ان مقامات کے وضو کااستحباب ثابت نہیں ہے ہاں اگر ان کے مستحب ہونے کے احتمال کے ساتھ کوئی وضو کرے تو اس کا وضو صحیح ہے اور ہر وہ کام کرسکتا ہے جو باوضو کرنا ضروری ہے مثلاً اس وضو کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے۔

مبطلات وضو

مسئلہ (۳۲۲)سات چیزیں وضوکوباطل کردیتی ہیں :

(اول:) پیشاب اورمشکوک رطوبت جو انسان سے پیشاب کے بعد اور استبراء کے پہلے نکلتی ہے وہ ظاہراً پیشاب کے ضمن میں ہے ۔

(دوم:) پاخانہ

(سوم:) معدے اورآنتوں کی ہواجو مقعد سے خارج ہوتی ہے۔

(چہارم:) نیندجس کی وجہ سے نہ آنکھیں دیکھ سکیں اور نہ کان سن سکیں ، لیکن اگرآنکھیں نہ دیکھ رہی ہوں لیکن کان سن رہے ہوں تووضوباطل نہیں ہوتا۔

(پنجم:) ایسی حالت جن میں عقل زائل ہوجاتی ہو مثلاًدیوانگی، مستی یابے ہوشی۔

(ششم:) عورتوں کا استحاضہ جس کاذکربعدمیں آئے گا۔

(ہفتم:) جنابت بلکہ احتیاط مستحب کی بناپرہروہ کام جس کے لئے غسل کرناضروری ہے۔

وضوءجبیرہ کے احکام

وہ چیزجس سے زخم یاٹوٹی ہوئی ہڈی باندھی جاتی ہے اور وہ دواجوزخم یاایسی ہی کسی چیزپرلگائی جاتی ہے جبیرہ کہلاتی ہے۔

مسئلہ (۳۲۳) اگروضوکے اعضامیں سے کسی پرزخم یاپھوڑاہویاہڈی ٹوٹی ہوئی ہو اور اس کامنہ کھلاہواور پانی اس کے لئے مضرنہ ہوتواسی طرح وضوکرناضروری ہے جیسے عام طورپرکیاجاتاہے۔

مسئلہ (۳۲۴) اگرکسی شخص کے چہرے اورہاتھوں پرزخم یاپھوڑاہویااس کی ہڈی ٹوٹی ہوئی ہواور اس کامنہ کھلاہواوراس پرپانی ڈالنانقصان دہ ہو تواسے زخم یاپھوڑے کے آس پاس کاحصہ اس طرح اوپرسے نیچے جیسا(وضوکے بارے میں بتایا گیاہے) اور بہتریہ ہے کہ اگراس پرتر ہاتھ کھینچنا نقصان دہ نہ ہوتوترہاتھ اس پرکھینچے اوراس کے بعدپاک کپڑااس پرڈال دے اور گیلا ہاتھ اس کپڑے پربھی کھینچے۔البتہ اگر ہڈی ٹوٹی ہوئی ہوتوتیمم کرنالازم ہے۔

مسئلہ (۳۲۵) اگرزخم یاپھوڑایاٹوٹی ہوئی ہڈی کسی شخص کے سرکے اگلے حصے یا پاؤں پرہواوراس کامنہ کھلاہواوروہ اس پرمسح نہ کرسکتاہوکیونکہ زخم مسح کی پوری جگہ پر پھیلا ہوا ہویامسح کی جگہ کاجوحصہ صحیح وسالم ہواس پرمسح کرنابھی اس کی قدرت سے باہر ہو تو اس صورت میں ضروری ہے کہ تیمم کرے اور احتیاط مستحب کی بناپروضوبھی کرے اور پاک کپڑازخم وغیرہ پررکھے اوروضوکے پانی کی تری سے جوہاتھوں پر لگی ہوکپڑے پرمسح کرے۔

مسئلہ (۳۲۶)اگرپھوڑے یازخم یاٹوٹی ہوئی ہڈی کامنہ کسی چیز سے بندہواوراس کا کھولنابغیر تکلیف کے ممکن ہواورپانی بھی اس کے لئے مضرنہ ہوتواسے کھول کروضو کرنا ضروری ہے خواہ زخم وغیرہ چہرے اورہاتھوں پرہویاسرکے اگلے حصے اورپاؤں کے اوپر والے حصے پرہو۔

مسئلہ (۳۲۷) اگرکسی شخص کازخم یاپھوڑایاٹوٹی ہوئی ہڈی جوکسی چیزسے بندھی ہوئی ہواس کے چہرے یاہاتھوں پرہواوراس کاکھولنااوراس پرپانی ڈالنامضرہوتوضروری ہے کہ آس پاس کے جتنے حصے کودھوناممکن ہواسے دھوئے اور(احتیاط واجب کی بناء پر) جبیرہ پرمسح کرے۔

مسئلہ (۳۲۸) اگرزخم کا اوپری حصہ نہ کھل سکتاہواورخودزخم اورجوچیزاس پرلگائی گئی ہوپاک ہو اور زخم تک پانی پہنچانا ممکن ہواورمضر بھی نہ ہوتوضروری ہے کہ پانی کوزخم کے منہ سے نیچے کی طرف پہنچائے اور اگر زخم یااس کے اوپرلگائی گئی چیزنجس ہواوراس کادھونااورزخم کے منہ تک پانی پہنچاناممکن ہوتوضروری ہے کہ اسے دھوئے اوروضوکرتے وقت پانی زخم تک پہنچائے اوراگرپانی زخم کے لئے مضرنہ ہولیکن زخم کے منہ تک پانی پہنچاناممکن نہ ہویا زخم کا کھولنا مشقت یا ضرر کا سبب ہوتوضروری ہے کہ تیمم کرے۔

مسئلہ (۳۲۹)اگرجبیرہ اعضائے وضوکے کسی حصے پرپوری طرح پھیلا ہوا ہو تو بظاہر وضو جبیرہ ہی کافی ہے،لیکن اگرجبیرہ تمام اعضائے وضوپرپوری طرح یا اس سے زیادہ پر پھیلاہواہوتواحتیاط کی بناپرتیمم کرنا ضروری ہے اوروضوئے جبیرہ بھی کرے۔

مسئلہ (۳۳۰) یہ ضروری نہیں کہ جبیرہ ان چیزوں میں سے ہوجن کے ساتھ نمازپڑھنا درست ہے بلکہ اگروہ ریشم یاان حیوانات کے اجزا سے بنی ہوجن کاگوشت کھاناجائز نہیں توان پربھی مسح کرناجائزہے۔

مسئلہ (۳۳۱)جس شخص کی ہتھیلی اور انگلیوں پرجبیرہ ہواوروضوکرتے وقت اس نے ترہاتھ اس پرکھینچاہوتووہ سراورپاؤں کامسح اسی تری سے کرے۔

مسئلہ (۳۳۲) اگرکسی شخص کے پاؤں کے اوپروالے پورے حصے پرجبیرہ ہو، لیکن کچھ حصہ انگلیوں کی طرف سے اورکچھ حصہ پاؤں کے اوپروالے حصہ کی طرف سے کھلا ہو توجو جگہیں کھلی ہیں وہاں پاؤں کے اوپروالے حصے پراورجن جگہوں پرجبیرہ ہے وہاں جبیرہ پرمسح کرناضروری ہے۔

مسئلہ (۳۳۳)اگرچہرےیاہاتھوں پرکئی جبیرےہوں توان کادرمیانی حصہ دھونا ضروری ہے اوراگرسریا پاؤں کے اوپروالے حصے پر کئی جبیرے ہوں توان کے درمیانی حصے کا مسح کرناضروری ہے اور جہاں جبیرے ہوں وہاں جبیرے کے بارے میں احکام پر عمل کرناضروری ہے۔

مسئلہ (۳۳۴)اگرجبیرہ زخم کے آس پاس کے حصوں کو معمول سے زیادہ گھیرے ہوئے ہواور اس کو ہٹانابغیرتکلیف کے ممکن نہ ہوتوضروری ہے کہ متعلقہ شخص تیمم کرے بجز اس کے کہ جبیرہ تیمم کی جگہوں پر ہوکیونکہ اس صورت میں ضروری ہے کہ وضو اور تیمم دونوں کو بجالائیں دونوں صورتوں میں اگرجبیرہ کا ہٹانابغیرتکلیف کے ممکن ہوتوضروری ہے کہ اسے ہٹا دے۔ پس اگرزخم چہرے یاہاتھوں پرہوتواس کے آس پاس کی جگہوں کو دھوئے اور اگر سریاپاؤں کے اوپروالے حصے پرہوتواس کے آس پاس کی جگہوں کامسح کرے اور زخم کی جگہ کے لئے جبیرہ کے احکام پرعمل کرے۔

مسئلہ (۳۳۵)اگروضوکے اعضاپرزخم نہ ہویاان کی ہڈی ٹوٹی نہ ہولیکن کسی دوسری وجہ سے پانی ان کے لئے مضرہوتوتیمم کرناضروری ہے۔

مسئلہ (۳۳۶) اگروضوکے اعضاکی کسی رگ سے خون نکل آیاہواوراسے دھونا ممکن نہ ہوتوتیمم کرنالازم ہے۔ لیکن اگرپانی اس کے لئے مضرہوتوجبیرہ کے احکام پرعمل کرنا ضروری ہے۔

مسئلہ (۳۳۷)اگروضویاغسل کی جگہ پرکوئی ایسی چیزچپک گئی ہوجس کااتارناممکن نہ ہویااسےہٹانے کی تکلیف ناقابل برداشت ہوتومتعلقہ شخص کافریضہ تیمم ہے۔لیکن اگر چپکی ہوئی چیزتیمم کے مقامات پرہوتو اس صورت میں ضروری ہے کہ وضواور تیمم دونوں کرے اور اگرچپکی ہوئی چیزدواہوتووہ جبیرہ کے حکم میں آتی ہے۔

مسئلہ (۳۳۸)غسل میت کے علاوہ تمام قسم کے غسلوں میں غسل جبیرہ وضوئے جبیرہ کی طرح ہے لیکن( احتیاط لازم کی بناپر)مکلف شخص کے لئے ضروری ہے کہ غسل ترتیبی کرے (ارتماسی نہ کرے) اور اگربدن پرزخم یاپھوڑاہوتو مکلف کوغسل یاتیمم کا اختیار ہے۔ اگروہ غسل کواختیارکرتاہے اور زخم کا منہ کھلا ہوا ہوتو احتیا ط مستحب یہ ہےکہ زخم یاپھوڑے پر پاک کپڑا رکھے اور اس کپڑے کے اوپر مسح کرے اور اگربدن کا کوئی حصہ ٹوٹاہواہوتوضروری ہے کہ غسل کرے اور احتیاطاً جبیرہ کے اوپر بھی مسح کرے اور اگرجبیرہ پرمسح کرناممکن نہ ہویاجوجگہ ٹوٹی ہوئی ہے وہ کھلی ہو تو تیمم کرناضروری ہے۔

مسئلہ (۳۳۹) جس شخص کاوظیفہ تیمم ہواگر اس کی تیمم کی بعض جگہوں پرزخم یاپھوڑا ہویاہڈی ٹوٹی ہوئی ہوتو ضروری ہے کہ وہ وضوئے جبیرہ کے احکام کے مطابق تیمم جبیرہ کرے۔

مسئلہ (۳۴۰) جس شخص کووضوئے جبیرہ یاغسل جبیرہ کرکے نماز پڑھناضروری ہو اگر اسے علم ہوکہ نماز کے آخر وقت تک اس کاعذردورنہیں ہوگاتووہ اول وقت میں نماز پڑھ سکتاہے، لیکن اگراسے امیدہو کہ آخروقت تک اس کا عذردورہوجائے گاتواس کے لئے بہتریہ ہے کہ انتظارکرے اور اگراس کاعذر دورنہ ہوتوآخروقت میں وضوئے جبیرہ یا غسل جبیرہ کے ساتھ نماز اداکرے، لیکن اگراول وقت میں نماز پڑھ لے اور آخر وقت تک اس کا عذر دورہوجائے تواحتیاط مستحب یہ ہے کہ وضو یاغسل کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔

مسئلہ (۳۴۱)اگر کسی شخص کی آنکھ پرپٹی بندھی ہو اور آنکھ کے اندر بیماری ہو تو اس کی ذمہ داری تیمم کرنا ہے۔

مسئلہ (۳۴۲) اگرکسی شخص کویہ علم نہ ہوکہ آیااس کاوظیفہ تیمم ہے یاوضوئے جبیرہ تو (احتیاط واجب کی بناپر)اسے تیمم اور وضوئے جبیرہ دونوں بجالانے چاہئیں ۔

مسئلہ (۳۴۳)جونمازیں کسی انسان نے وضوئے جبیرہ سے پڑھی ہوں وہ صحیح ہیں اور وہ اسی وضو کے ساتھ آئندہ کی نمازیں بھی پڑھ سکتاہے۔لیکن اگر اس کی ذمہ داری وضو جبیرہ اور تیمم دونوں کے انجام دینے کی تھی تو عذر کے برطرف ہونے کے بعد ،آئندہ کی نمازوں کےلئے وضو کرنا ضروری ہے۔
واجب غسل ← → مُطہّرات
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français