مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

فتووں کی کتابیں » مناسک حج

سعی ← → چکروں کی تعداد میں شک

نماز طواف

عمرہ تمتع میں تیسرا واجب نماز طواف ہے ۔
یہ دو رکعت نماز ہے جو طواف کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ یہ نماز نماز فجر کی طرح ہے لیکن اس کی قرائت میں بلند آواز یا آہستہ سے پڑھنے میں اختیار ہے اور واجب ہے کہ یہ نماز مقام ابراہیم کے قریب پڑھی جائے اور اظہر یہ ہے کہ مقام ابراہیم کے پیچھے پڑھنا ضروری ہے۔ اگر مقام ابراہیم کے قریب پیچھے کی طرف پڑھنا ممکن نہ تو احوط یہ ہے کہ مقام ابراہیم کے نزدیک دائیں یا بائیں طرف پڑھے یا اس کے پیچھے دور کھڑے ہوکر پڑھے۔ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ان دو جگہوں میں سے جہاں ممکن ہو وہاں پڑھے اور احوط اولی یہ ہے کہ مقام ابراہیم کے پیچھے جتنے قریب میں نماز پڑھنا ممکن ہو جائے بہتر ہے۔
بناء بر احوط اولی بعد میں سعی کے لیے وقت تنگ نہ ہونے کی صورت میں مقام ابراہیم کے نزدیک یا اس کے پیجھے نماز پڑھنا ممکن ہو تو اسے چاہیے کہ دوبارہ نماز پڑھے ۔
یہ واجب طواف کا حکم ہے جب کہ مستحب طواف میں مکلف کو حق ہے حتی کہ اختیاری طو ر پر بھی کہ مسجد میں جس جگہ چاہے نماز پڑھے ۔
(۳۲۷) جو شخص جان بوجھ کر نماز طواف نہ پڑھے، احوط یہ ہے کہ اس کا حج باطل ہے ۔
(۳۲۸) احوط یہ ہے کہ طواف کے بعد فورا نماز طواف پڑھی جائے یعنی عرفا طواف اور نماز طواف میں فاصلہ نہ ہو۔
(۳۲۹) اگر نماز طواف بھول جائے اور وہ اعمال جو ترتیب میں اس کے بعد ہیں مثلا سعی کے بعد اسے یاد آئے تو نماز طواف پڑھے اور جو اعمال انجام دے چکا ہو ان کا دوبارہ انجام دینا ضروری نہیں ہے اگر چہ تکرار کرنا احوط ہے لیکن اگر سعی کے دوران یاد آجائے تو سعی چھوڑ کر مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھے اور پھر سعی کو جہاں سے چھوڑا تھا وہاں سے شروع کرکے تمام کرے۔ اگر مکہ سے نکل جانے کے بعد یاد آئے تو اگر مشقت و زحمت کا باعث نہ ہو تو احوط یہ ہے کہ واپس جاکر نماز کو اس جگہ پر پڑھے ورنہ جہاں یاد آئے وہیں پڑھ لے۔ حرم جاکر پڑھنا ضروری نہیں ہے خواہ لوٹنا ممکن ہو ۔ جو شخص مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے نماز طواف نہ پڑھے اس کا حکم وہ ہے جو نماز بھول جانے والے کا ہے اور جاہل قاصر و مقصر کے حکم میں فرق نہیں ہے ۔
(۳۳۰) اگر کوئی مر جائے اور اس پر نماز طواف واجب ہو اور قضا نمازوں کے باب میں مذکورہ شرائط موجود ہوں تو اس کا بڑا بیٹا اس کی قضا انجام دے ۔
(۳۳۱) اگر نماز کی قرائت میں اعراب کی غلطی ہو اور وہ اس کی درستگی نہیں کر سکتا ہو تو اس غلطی کے ساتھ سورہ حمد کا پڑھنا کافی ہے بشرطیکہ زیادہ مقدار اچھی قرائت کے ساتھ پڑھ سکتا ہو ۔
لیکن اگر زیادہ قرائت درست قرائت کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا تو احتیاط یہ ہے کہ اپنی اس قرائت کے ساتھ پورے قران میں جو درست قرائت کر سکتا ہو قرائت کرے اور اگر یہ نا ممکن ہو تو تسبیحات پڑھے ۔
اگر وقت کی تنگی کی وجہ سے پوری قرائت درست نہیں کر سکتا تو جتنی زیادہ مقدار درست کر سکتا ہو تو اسی کو پڑھے۔ اگر اس کی زیادہ مقدار بھی درست قرائت نہ کر سکے تو قرآن کی وہ آیات جن کی قرائت درست پڑھ سکتا ہے پڑھے مگر اتنا پڑھے کہ عرف میں اسے قرآئت قرآت کہا جا سکے اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتا تو تسبیحات کا پڑھنا کافی ہے۔ یہ جو کچھ بیان ہوا ہے وہ سورہ حمد کے بارے میں اور سورہ حمد کے بعد والے سورہ کے بارے میں ظاہر یہ ہے کہ جس شخص نے اسے یاد نہیں کیا یا یاد نہیں کر سکتا اس پر واجب نہیں ہے اور مذکورہ حکم ہر اس شخص کے لیے ہے جو صحیح قرآئت نہیں کر سکتا ہے۔ چاہے نہ سیکھنے میں مقصر ہی کیوں نہ ہو لیکن مقصر ہونے کی صورت میں احوط اولی یہ ہے کہ مذکورہ طریقے سے نماز پڑھے اور جماعت کے ساتھ بھی پڑھے نیز اپنی طرف سے کسی کو نائب بنائے جو اس کی طرف سے نماز ادا کرے ۔
(۳۳۲) اگر قرائت میں اعراب کو صحیح ادا نہ کر سکتا ہو اور نہ جاننے میں معذور ہو تو اس کی نماز صحیح ہوگی اور دوبارہ نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔اور اس پر بھول کر نماز طواف چھوڑ دینے والے کے احکام جاری گا۔
سعی ← → چکروں کی تعداد میں شک
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français